کیا مہر میں کچھ رقم طے کرنا ضروری ہے؟

ایک لڑکی کہتی ہے کہ میں مہر کے طور پرکچھ بھی رقم نہیں لوں گی۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ میرا ہونے والاشوہر دین کے کاموں میں میرا تعاون کرے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب

مہر عو رت کی عزت افزائی کی ایک علامت ہے۔ قرآن مجید میں اسے ’صدقۃ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ اسے ادا کریں ۔ (النساء۴) احادیث کے عمومی رجحان کو دیکھتے ہوئے فقہا نے کہا ہے کہ مہر مال کی شکل میں ہونا چاہیے۔ اگرچہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مال ہونا ضروری نہیں ۔ حضرت ام سلیمؓ کو ایک صاحب نے نکاح کی پیش کش کی۔ اس وقت تک وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ حضرت ام سلیمؓ نے فرمایا کہ آپ اسلام لے آئیں تو میں نکاح کر سکتی ہوں اور یہی میرا مہر ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ (نسائی۳۳۴۰) ایک نوجوان سے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ مہر میں کچھ دو، چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔ جب اس نے کہا کہ میرے پاس وہ بھی نہیں ہے تو آپؐ نے فرمایا: اچھا تو اپنی بیوی کو قرآن مجید کی کچھ سورتیں یاد کرا دینا۔ (بخاری۵۰۲۹، مسلم ۱۴۲۵)
اللہ کے رسول ﷺ نے گیارہ نکاح کیے، آپ نے اپنی بیٹیوں اور دیگر رشتے دار لڑکیوں کا نکاح کیا، سب میں مہر مال کی شکل میں طے کیا گیا۔ صحابۂ کرام کے نکاحوں میں بھی عموماً مال کی کوئی مقدار طے ہوئی۔ اس لیے اس تعامل کو دیکھتے ہوئے مہر مال کی شکل میں طے ہونا چاہیے۔ البتہ قرآن میں عورتوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اگر چاہیں تو کل مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کر سکتی ہیں ۔ (النساء۴)