کیا وراثت میں بھتیجی کاحق نہیں؟

,

میرے والد تین بھائی تھے۔ میرے دوحقیقی بھائی ہیں۔ ایک چچا کے دولڑکے ہیں۔ دوسرے چچا کا نکاح نہیں ہواتھا۔حال میں ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی وراثت تقسیم ہوتے وقت یہ مسئلہ بتایا گیا کہ اگر کسی شخص کے ورثہ میں ماں باپ، بیوی، اولاد اور بھائی بہن نہ ہوں، صرف بھتیجے بھتیجیاں ہوں تو صرف بھتیجے مستحق وراثت ہوتے ہیں، بھتیجیاں محروم رہتی ہیں۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ اگر بھتیجے مستحق ہیں تو بھتیجیاں کیوں نہیں؟ کیا یہ بات درست ہے؟اگر ہاں تو اس کی وجہ کیا ہے؟

جواب

شریعت میں وراثت کے استحقاق کی بنیادقرابت کوبنایاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ۝۰۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ                    ( النساء۷)

’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو۔‘‘

ورثہ کی تین قسمیں کی گئی ہیں

اول اصحاب الفرائض، یعنی وہ ورثہ جن کے حصے قرآن مجید میں بیان کردیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے ان میں وراثت تقسیم ہوگی۔ ان کی کل تعداد بارہ (۱۲) ہےچار(۴) مرد (باپ، داد، اخیافی (ماں شریک) بھائی اورشوہر) ہیںاور آٹھ (۸) عورتیں  (بیوی، ماں ،بیٹی ، پوتی ، سگی بہن ، علاتی (باپ شریک ) بہن، اخیافی بہن، دادی؍ نانی) ہیں۔

دوم  عصبہ،یعنی وہ ورثہ جن کے حصے مقرر نہیں۔ یہ لوگ اصحاب الفرائض سے بچاہوا مال وراثت پاتے ہیں اور اصحاب الفرائض میں سے کوئی نہ ہوتو کل مال وراثت کے مالک بنتے ہیں۔ یہ نسب کے اعتبارسے قریبی رشتے دار ہیں۔ عصبہ کی تین قسمیں کی گئی ہیں

(۱) عصبہ بنفسہیہ وہ رشتے دار ہیں جن کے اور میت کے درمیان کسی عورت کا واسطہ نہ ہو۔ یہ صرف مرد ہیں، مثلاً بیٹا، پوتا ،باپ، دادا ، بھائی ، بھتیجا، چچا ، چچازاد بھائی وغیرہ۔

(۲) عصبہ بغیرہ یہ وہ اصحاب الفرائض عورتیں ہیں جو اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر عصبہ بنتی ہیں، مثلاً بیٹی بیٹا کے ساتھ، پوتی پوتا کے ساتھ، سگی بہن سگے بھائی کے ساتھ اور علاتی بہن علاتی بھائی کے ساتھ ۔

(۳) عصبہ مع غیرہ یہ وہ عورتیں ہیں جو دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر عصبہ بنتی ہیں۔ مثلاً سگی بہن بیٹی یا پوتی کے ساتھ، علاتی بہن بیٹی یا پوتی کے ساتھ۔

سوم  ذوی الارحام  یہ لوگ اس وقت وراثت میں حصہ پاتے ہیں جب میت کے رشتے داروں میں اصحاب الفرائض اور عصبہ نہ ہوں۔ اس میں چار طرح کے لوگ آتے ہیں

(۱) وہ وارثین جو میت کی طرف منسوب ہوتے ہیںنواسا، نواسی۔

(۲) وہ وارثین جن کی طرف میت منسوب ہوتاہے نانا،پرنانا۔

(۳) وہ وارثین جو میت کے ماں باپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں  بھتیجی، بھانجا، بھانجی۔

(۴)وہ وارثین جو میت کے دادا، دادی؍نانا، نانی کی طرف منسوب ہوتے ہیں پھوپھی، خالہ،ماموں۔

مال وراثت اصحاب الفرائض میں تقسیم ہونے کے بعد اگر کچھ بچے تو عصبہ میں تقسیم ہونے کی دلیل اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد ہے

اَلحِقُوا الفَرَائِضَ بِاھلِھَا، فَمَا بَقِیَ فَلِأولیٰ رَجُل ذَکَر

(بخاری۶۷۳۷)

’’میراث کے مقررحصے ان کے حق داروں کو دو۔اگرکچھ باقی بچے تو وہ قرابت میں مقدم مرد کا ہوگا۔‘‘

فقہاء نے بھتیجیوں کا شمار ذوی الارحام میں کیا ہے۔ چوں کہ کل مال وراثت عصبہ ہونے کی حیثیت سے بھتیجوں میں تقسیم ہوجائے گا، ذوی الارحام کے لیے کچھ نہیں بچے گا، اس لیے بھتیجیاں ، جو ذوی الارحام میںسے ہیں، محروم رہیں گی۔