کیا پرندہ پالنا جائز ہے؟

جو لوگ ’حقوقِ حیوانات‘ کے میدان میں بہت سرگرم ہیں۔ وہ پرندوں کو پالنے اور انھیں پنجروں میں بند رکھنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں، کیا شرعی اعتبار سے ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

شرعی اعتبار سے پرندوں، مثلاً طوطا اور جانوروں، مثلاً بلّی، خرگوش وغیرہ کو پالنا جائز ہے، بشرطے کہ ان کی خوراک کا معقول انتظام اور سردی، گرمی اور بارش وغیرہ سے حفاظت کا مناسب بند و بست کیا جائے۔ احادیث ِنبوی سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔

حضرت انسؓ بن مالک نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر برابر تشریف لایا کرتے تھے۔ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، جس کا نام ابو عمیر تھا۔ آپؐجب بھی آتے ابو عمیر سے خوب ہنسی مذاق، خوش طبعی اور دل لگی کیا کرتے تھے۔ (یُضَاحِکُهُ، یُمَازِحُهُ، یُلَاطِفُهُ)۔ ابوعمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی، جس سے وہ کھیلا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ آپؐتشریف لائے تو ابوعمیر کو غم گین پایا۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اس کی چڑیا مر گئی ہے۔ آپ نے ابو عمیر کو چھیڑتے ہوئے فرمایا

یَا اَبَا عُمَیرُ!مَا فَعَلَ النُغَیْرُ ۔’’اے ابو عمیر! نغیر کو کیا ہوا؟‘‘

(بخاری۶۱۲۹، ۶۲۰۳، مسلم۲۱۵۰)

اس حدیث سے پرندوں کو پالنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اگر یہ درست نہ ہوتا تو آپؐ ضرور ایسا کرنے سے منع کر دیتے۔

علامہ ابن حجرعسقلانی  ؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے

اِنَّ فِي الحَدِیْثِ دَلَاَلَةً عَلیٰ جَوَازِ اِمْسَاكِ الطَّیْرِ فِي القَفَصِ وَغَیْرِہ، وَیَجِبُ علیٰ مَنْ حَبَسَ حَیْوَاناً مِّنَ الحَیوَانَاتِ اَنْ یُحْسِنَ اِلَیْهِ وَیُطْعِمَهُ مَا یَحْتَاجُ لِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ۔

( فتح الباری بشرح صحیح البخاری۱۰؍۵۸۶)

’’اس حدیث سے پرندے کو پالنے کا ثبوت ملتا ہے، چاہے اسے پنجرے میں بند رکھا جائے، یا کھلا رکھا جائے۔ جو شخص کسی پرندے کو اپنے پاس رکھے اس پر واجب ہے کہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور اس کے کھانے پینے کا خیال رکھے۔‘‘

پرندوں یا جانوروں کو پالنے کے بعد ان سے لاپروائی برتی جائے، ان کے کھانے پینے کا معقول انتظام نہ کیا جائے ، یا ایسے کام کیے جائیں تو ان کی اذیت کا سبب بنیں، اس سے روکا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا

دَخَلَتْ امْرَأۃٌ النَّارَ فِي ھِرَّۃٍ رَبَطَتْھَا، فَلَمْ تُطْعِمْھَا وَلَمْ تَدَعْھَا تَأکُلُ مِنْ خَشَاشِ الاَرْضِ           (بخاری۳۳۱۸، مسلم ۲۲۴۲)

’’ایک عورت صرف اس وجہ سے جہنم میں چلی گئی کہ اس نے ایک بلّی باندھ رکھی تھی۔ اسے نہ تو خوراک دی اور نہ کھلا چھوڑ دیا کہ وہ کیڑے مکوڑے کھاکر اپنا پیٹ بھر لیتی۔ ‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں اور جانوروں کو پالنا شرعی طور پر جائز ہے، بشرطے کہ ان کے کھانے پینے کا خصوصی انتظام کیا جائے، ان کے آرام کا خیال رکھا جائے، انھیں اتنا مانوس کرلیا جائے کہ قید کرکے رکھنے کی ضرورت نہ پڑے اور قید رکھنا مجبوری ہو تو ان کی رہائش کا بہتر اور آرام دہ انتظام کیا جائے اور سختی سے اس کا خیال کیا جائے کہ انھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے۔

مزید یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر کسی ملک میں پرندوں اور جانوروں کے حقوق کے سلسلے میں کچھ قوانین بنائے گئے ہوں تو ان کی پابندی بھی ضرور کرنا چاہیے۔