جواب
قرآن مجید میں ہے کہ جب شیطان بارِ گاہِ اِلٰہی سے راندۂ درگاہ قرار پایا تو اس نے بڑی ڈھٹائی سے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا:
وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ (النساء۱۱۹)
’’ میں انہیں (یعنی انسانوں کو) ضرور بہکاؤں گا، میں انہیں خوب آرزؤوں میں الجھادوں گا اور میں انہیں حکم دوں گا، جس پر عمل کرتے ہوئے وہ جانوروں کے کان پھاڑیں گے اورمیں انہیں حکم دوں گا ، چنانچہ وہ (میرے حکم سے) خدائی ساخت میں ردّ وبدل کریں گے‘‘۔
اس آیت میں خدائی ساخت میں تبدیلی کی ایک مثال جانوروں کے کان پھاڑنے سے دی گئی ہے ۔ اس طرح کی اوربھی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں ۔ ممنوع وہ تبدیلی ہے جس سے اصل خلقت کی منفعت متاثر ہو۔ جانوروں میں خصی کرنے کی اجازت فقہا نے اسی لیےدی ہے کہ ایسا کرنے سے ان کی منفعت میں اضـافہ ہوتا ہے، وہ جلدفربہ ہوتے ہیں اوران کے گوشت میں بھی خوبی پیدا ہوجاتی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ نے خصی کیے ہوئے مینڈھوں کی قربانی کی ہے۔ انسانوں میں خلقت میں تبدیلی کی مثالیں اُس حدیث میں بیان کی گئی ہیں جوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے:
لَعَنَ اللہُ الْواشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَجِّلاَتِ للِحُسْنِ الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللہِ (بخاری۴۸۸۶، مسلم۲۱۲۵)
’’اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو جسموں پر گودتی ہیں اورجوگدواتی ہیں ، جواپنے بال اکھیڑتی ہیں اور جو بناوٹی خوب صورتی پیدا کرنے کے لیے دانتوں کورگڑ کر پتلا کرتی ہیں ۔ یہ عورتیں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والی ہیں ۔‘‘
آیتِ مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی سے کیا مراد ہے؟ اس کی بڑی اچھی تشریح مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کی ہے ۔ لکھتے ہیں :
’’ خدائی ساخت میں ردّ وبدل کرنے کا مطلب اشیا کی پیدائشی بناوٹ میں ردّ وبدل کرنا نہیں ہے ۔ اگراس کا یہ مطلب لیا جائے تب تو پوری انسانی تہذیب ہی شیطان کے اغوا کا نتیجہ قرار پائے گی۔ اس لیے کہ تہذیب تو نام ہی ان تصّرفات کا ہے جوانسان خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں کرتا ہے ۔ دراصل اِس جگہ جس ردّ وبدل کوشیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا نہیں کیا ہے اورکسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا نہیں کیا ہے۔ بہ الفاظ دیگروہ تمام افعال جوانسان اپنی اوراشیا کی فطرت کے خلاف کرتا ہے اوروہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے، اس آیت کی روٗ سے شیطان کی گم راہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں ۔ مثلاً عمل قوم لوط ، ضبط ولادت، رہبانیت ، برہم چرج، مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا، مردوں کوخواجہ سرا بنانا ، عورتوں کوان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمدّن کے ان شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد پیدا کیا گیا ہے، یہ اور اس طرح کے دوسرے بے شمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کررہے ہیں ، دراصل یہ معنیٰ رکھتے ہیں کہ یہ لوگ خالقِ کائنات کے ٹھہرائے ہوئے قوانین کوغلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح فرمانا چاہتے ہیں ‘‘۔
(تفہیم القرآن ، سورۂ النساء ، حاشیہ نمبر ۱۴۸)
بسا اوقات انسان میں پیدائشی طورپر کوئی عیب ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے اس کی بدہیئتی نمایاں ہوتی ہے ، مثال کے طور پر ہونٹ یا تالو کٹا ہو، ہاتھ یا پیر میں زائد انگلی ہو ، منہ میں زائد دانت ہو یا کوئی دانت لمبا ہو ، یااسی طرح کا کوئی اورعیب۔ اس کا بھی امکان ہے کہ عیب پیدائشی نہ ہو، بلکہ کسی حادثہ کے نتیجے میں پیدا ہوگیا ہو ، مثلاً ایکسیڈنٹ میں ناک ٹوٹ گئی ، یا کان کٹ گیا ، یا آگ لگنے سے جلد جھلس گئی۔ ان تمام صورتوں کو فقہا نے مرض شمار کیا ہے اوراس کا علاج معالجہ کرنے کی نہ صرف اجازت، بلکہ حکم دیا ہے ۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ آپریشن کے ذریعے کوئی پیدائشی نقصان دور کرنا اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کے دائرے میں نہیں آتا، جس سے قرآن وحدیث میں روکا گیا ہے۔
غیر مسلموں کے زیر انتظام کسی اسپتال میں ملازمت کرنا مسلمان سرجن کے لیے جائز ہے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرنا نیکی کا کام ہے ۔ اس معاملے میں بلاتفریق مذہب تمام انسانوں کا تعاون اورخدمت مطلوب ہے۔ البتہ ظاہر ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہو، شرعی حدود کی پابندی کرے گا۔