براہ کرم ایک مسئلے میں میری شرعی رہ نمائی فرمائیں۔
میری چار لڑکیاں ہیں۔ جب میری چوتھی لڑکی پیدا ہوئی تو میں نے اسے اپنے برادرِ نسبتی کو دے دیا۔ انہوں نے کاغذات بنوائے تو اس کے باپ کی جگہ اپنا نام لکھوایا۔ اب وہ لڑکی خاندان میں ان کی بیٹی کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔
میں نے سنا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی بچی کو گود لے لے تو صرف اس کے نکاح کے وقت اس کے حقیقی باپ کا نام بتانا کافی ہوتا ہے، لیکن اب مجھے معلوم ہوا کہ ولدیت بدلنا گناہ کا کام ہے، بچے یا بچی کو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی منسوب کرنا چاہیے۔ میں نے یہ بات اپنے برادرِ نسبتی کے سامنے رکھی، لیکن وہ کچھ سننے کو تیار نہیں ہیں۔ اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں کیا کروں ؟ براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔
جواب
اسلام میں نسب کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اولاد کو ان کے حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔ گود لینے والے یا کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا صریح حکم ہے:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِیاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ یقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ یهْدِی السَّبِیلَ۔ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِی الدِّینِ وَمَوَالِیكُمْ ( الأحزاب: ۴۔ ۵)
’’اور نہ اس نے تمہارے منھ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منھ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے اور وہی سیدھے طریقے کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔ منھ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔ اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔ ‘‘
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مَنِ ادَّعیٰ اِلیٰ غَیْرِ اَبِیْہِ وَ هُوَ یَعْلَمُ فَالجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ ( بخاری:۴۳۲۶)
’’جس شخص نے جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کی، اس پر جنّت حرام ہے۔ ‘‘
صحیح ولدیت ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے کئی خرابیاں لازم آتی ہیں :
کسی شخص نے کسی لڑکی کو گود لیا ہو اور اس کے اپنے لڑکے بھی ہوں تو شرعی طور پر اس لڑکی کا نکاح اس کے کسی لڑکے سے ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ شخص اس کی ولدیت میں اپنا نام لکھوالے تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف اس کے حقیقی رشتے جو اس کے لیے درحقیقت محرم ہیں، نسب سے ناواقفیت کبھی ان کی حرمت کی پامالی کا سبب بن سکتی ہے۔
گود لینے والے شخص کی وراثت میں اس لڑکی کا کوئی حصہ نہیں۔ لیکن ولدیت میں اس کا نام ہونے کی بنا پر وہ مستحقِ وراثت بن جاتی ہے۔ دوسری طرف اس کے حقیقی رشتے داروں کی وراثت میں اس کا جو حصہ ہوسکتا ہے، اس سے وہ محروم رہ جاتی ہے۔
گود لینے والے اور اس کے بچوں سے اس لڑکی کا کوئی قریبی رشتہ نہ ہو تو پردے کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔
کسی بچی کو گود لینا، اس کی پرورش و پرداخت کرنا اور اسے زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔ ایسا کرنے والا بارگاہِ الٰہی میں اجر کا مستحق ہوگا۔ لیکن ضروری ہے کہ وہ اپنا نام سرپرست (Gaurdian)کی حیثیت سے لکھوائے، خود کو اس کا باپ ظاہر نہ کرے اور نہ دستاویزات میں اپنا نام باپ کی حیثیت سے درج کروائے۔
اگر کبھی ایسی غلطی ہو جائے اور بعد میں اس عمل کے غلط ہونے کا احساس ہو جائے تو جلد اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ اپنے برادرِ نسبتی سے بات کیجیے، ان کے سامنے قرآن و حدیث کے حوالے دیجیے اور انہیں سمجھائیے کہ ایک مسلمان کے لیے جانتے بوجھتے کوئی غیر شرعی اور ناجائز کام کرنا مناسب نہیں ہے۔ کاغذات کو بھی درست کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس میں دشواری ہو تو کم از کم خاندان اور سماج میں یہ بات عام کر دینی چاہیے کہ فلاں شخص اس لڑکی کا باپ جب کہ فلاں اس کا سرپرست ہے۔