جواب
فقہائے احناف کے نزدیک کسی آبادی میں نماز جمعہ درست ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ اس پر شہر کا اطلاق ہوتا ہو۔ بعض فقہا کے نزدیک شہر سے مرادوہ بستی ہے جس میں سلطان (مسلم حکم راں ) ہو، یا قاضی ہو، جو لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کرتا ہو ، حدود نافذ کرتا ہو اور دیگر دینی احکام صادر کرتا ہو۔ جس بستی میں یہ شرط نہ پائی جائے وہاں لوگوں پر جمعہ واجب نہیں ، وہ ظہر پڑھیں گے۔
اس سلسلے میں امام ابو حنیفہؒ کے شاگر رشید قاضی ابو یوسفؒ کا قول یہ ہے کہ اگر کسی آبادی کے تمام لوگ پنچ گانہ مساجد میں سے بڑی مسجد میں جمع ہوں اور وہ ان کے لیے ناکافی ہو جائے تو ایسی آبادی کو شہر کہا جائے گا۔( اِنَّہٗ مَا اِذَا اِجْتَمَعُوْافِی أَکْبَرِ مَسَاجِدِھِمْ لِلصَّلَوَاتِ الخَمْسِ لَمْ یَسَعْھُمْ) اسی پر اکثر فقہائے احناف کا فتویٰ ہے۔ (البحر الرائق۳؍۲۴۶، بدائع الصنائع۱؍ ۵۸۵، فتح القدیر۲؍ ۴۲)
یہ شرط صرف فقہائے احناف کے نزدیک ہے۔ دوسرے فقہاء کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ہر طرح کی بستی میں نماز جمعہ پڑھی جا سکتی ہے۔ موجودہ دور میں ، جب کہ مسلم عوام کی اکثریت میں جہالت اور بے دینی کے سبب پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام نہیں ہے، وہ صرف نماز جمعہ پڑھ کر ہی اسلام سے اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہیں ، ان حالات میں مناسب، بلکہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ’ شہر‘ کا وہ مفہوم لیا جائے جس سے زیادہ سے زیادہ مقامات پر نماز جمعہ قائم کرنے کی گنجائش نکل جائے اور اس موقع کو عوام کی تذکیر و موعظت کے لیے استعمال کیا جائے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مذکورہ بستی کی تین مساجد میں سے کسی ایک میں نماز جمعہ کا آغاز کیا جائے اور بعد میں جب وہ تنگ ہو جائے یا دوسرے مقامات سے وہاں پہنچنے میں لوگوں کو زحمت ہو تو دوسری مسجدوں میں بھی نماز جمعہ شروع کر دی جائے۔