جواب
یہ دیکھ کربہت افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں جیسی صورت رکھنے والے بعض لوگ بہت آسانی سےباطل کے آلۂ کار بن جاتے ہیں اورچند سکّوں کے عوض اسلام کی تصویر مسخ کرنے اور مسلمانو ں کوبدنام کرنے کے معاملے میں سرگرمی دکھاتے ہیں ۔
کسی حدیث کا حوالہ دیتے وقت یا اس کوپیش کرتے وقت ایک اہم بات کولازماً سامنے رکھنا چا ہیے۔ اسلام کے خلاف دشمنوں کی سازشیں ابتداہی سے شروع ہوگئی تھیں ۔ اس ضمن میں سازشی افراد نے لا کھو ں حدیثیں گھڑیں اور انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیں ۔اس فتنے کی سرکوبی کے لیے اللہ تعالیٰ نے علمائے امت میں سے ایک طبقے کو کھڑا کیا ، جس نے احادیث وروایات کی تحقیق اور چھان پھٹک کا زبردست کارنامہ انجام دیا ۔ ان حضرات نے احادیثِ نبوی کی روایت کرنے والے ایک ایک فرد کے حالات معلوم کیے ، اس کے ذوق ومزاج ، عادات واطوار، سیرت وکردار کا جائزہ لیا ۔ جو روایات بیان کی جارہی تھیں ان کے متن کوبھی پرکھا۔ اس طرح انہوں نے صحیح ، ضعیف اور موضوع (من گھڑت ) احادیث کوچھانٹ کرالگ الگ کردیا ۔ آج ہم پو ر ے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں حدیث صحیح اورقابلِ استدلال ہے یا ضعیف ، موضوع اورقابلِ رد ۔ محدثین نے ایک کام یہ بھی کیا کہ تمام احادیث وروایات کو، خواہ وہ صحیح ہوں یا ضعیف یا موضوع، اپنی کتابوں میں درج کردیا اوران کی حیثیت بھی بتادی ، تاکہ اگرکوئی شخص آئندہ ان کوپیش کرے یا ان کا حوالہ دے تو تحقیق کرکے ان کے بارے میں معلوم کیا جاسکے کہ ان کی حیثیت کیا ہے ؟ ان سے استدلال درست ہے یا غلط ؟ یہ امت پر محدثین کا بہت بڑا احسان ہے ۔
گائے کے دودھ اورگوشت کے سلسلے میں کئی احادیث مروی ہیں ۔ایک حدیث حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَلَیْکُمْ بِاَلْبَانِ الْبَقَرِ، فَاِنَّہَا تَرِمُ مِنْ کُلِّ شَجَرٍ، وَہُوَ شَفَاءٌ مِّنْ کُلِّ دَاءٍ
’’تم لوگ گائے کا دودھ پیو، اس لیے کہ گائے تمام درختوں کے پتے کھاتی ہے ۔ اس کے دودھ میں ہر مرض سے شفا ہے ۔‘‘
اس حدیث کوحاکم نے روایت کیا ہے ۔ اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے ، ذہبی نے اس کی تائید کی ہے اور علامہ البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے ۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :۴؍۵۸۲)
دوسری حدیث میں اضافہ ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں :
عَلَیْکُمْ بِالْبَانِ الْبَقَرِ وَسَمُنَانِہَا وَاِیَّاکُمْ وَلُحُوْمَہَا فَاِنَّ اَلْبَانَہَا وَسَمُنَانَہَا دَوَاءٌ وَّشِفَاءٌ وَلُحُومَہَا دَاءٌ
’’گائے کا دودھ اورمکھن کھاؤ اوراس کا گوشت کھانے سے بچو۔ اس لیے کہ اس کے دودھ اور مکھن میں دوا اورشفاء ہے اوراس کے گوشت میں مرض ہے ۔‘‘
یہ روایت (۴؍۴۴۸)مستدرک حاکم ، سیوطی بہ حوالہ ابن سنی اورابونعیم (الطب ) نے نقل کی ہے، لیکن اس کی سندمیں کئی علّتیں ہیں :
۱- اس کا ایک راوی سیف بن مسکین السلمی البصری ہے ۔ محدثین نے اسے غیر معتبر قرار دیا ہے۔ ابن حبّان نے لکھا ہے :’’ یہ اپنی روایتوں میں الٹی سیدھی اورمن گھڑت باتیں کہتا ہے ۔(کتاب المجر و حین : ۱؍۳۴۷) دار قطنی کہتے ہیں : یہ قوی نہیں ہے۔
۲- اسی حدیث کی دوسری سندوں میں ، جس کے روایت کرنے والے معتبر افراد ہیں ، گوشت والا اضافہ نہیں ہے ۔ اس میں صرف دودھ کا تذکرہ ہے ۔
۳- اس کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ان کے بیٹے عبدالرحمن نے کی ، جب کہ دونوں کا سماع ثابت نہیں ہے ۔ ابن مسعودؓکے انتقال کے وقت ان کے بیٹے عبدالرحمٰن بہت کم عمر تھے ۔ (تہذیب التہذیب : ۶؍۲۱۶)
۴- اس کے ایک راوی (عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عتبہ المسعودی ) کا ذہنی توازن آخری عمر میں بگڑگیا تھا ۔(تہذیب التہذیب : ۶؍۲۱۱)
اس بنا پر محدثین نے اس روایت کونا معتبر قرار دیا ہے ۔ ابنِ حبان نے اسے ’واہ ٍ‘ (مہمل ) کہاہے۔زرکشی کہتے ہیں : یہ حدیث منقطع ہے ۔ اس کی صحت محل نظر ہے (التذکرۃ فی الاحادیث المشتہرۃ ، ص ۱۴۸) سخاوی کہتے ہیں : یہ روایت ضعیف اورمنقطع ہے (الاجوبۃ المرضیۃ:۱؍ ۲۳)حافظ ابن حجرؒنے فرمایا ہے : یہ روایت ضعیف سندوں سے مروی ہے ۔ (أسئلۃ وأجوبۃ ، ص ۶۱)
اسی مضمون کی ایک حدیث ان الفاظ میں ہے :
أَلْبَانُہَا (یعنی اَلْبَقَرُ)شِفَاءٌ وَسَمَنُہَا دَوَاءٌ ، وَلَحْمُہَا دَاءٌ
’’گائے کے دودھ میں شفاہے، اس کا مکھن دوا ہے اوراس کے گوشت میں مرض ہے ۔‘‘
اس روایت کوعلی بن جعد نے اپنی مسند (ص ۳۹۳)میں ، ابوداؤد نے المراسیل (ص ۳۱۶) میں ، طبرا نی نے المعجم الکبیر(۲۵؍۴۲)میں ،ا بونعیم نے معجم الصحابۃ (نمبر ۷۸۵۰) میں ، بیہقی نے السنن الکبریٰ (۹؍۳۴۵) او رشعب الایمان (۵؍۱۰۳) میں نقل کیا ہے ۔ لیکن یہ بھی ضعیف ہے ۔ اس لیے کہ ملیکہ کے صحابیہ ہونے میں اختلاف ہے ۔ امام سخاوی نے الاجوبۃ المرضیۃ (۱؍۲۱) میں ، منادی نے فیض القدیر (۲؍۱۹۲) میں اور عجلونی نے کشف الخفاء (۲؍۱۸۲) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔یہ روایت دیگر سندوں سے بھی مروی ہے ۔ مثلاً ابن عدی (الکامل :۷؍۲۹۸)نے اسے مسند ابن عباس سے روایت کیا ہے ، لیکن اس میں ایک راوی محمد بن زیاد الطحان متہم بالکذب ہے۔ ابن سنی اور ابونعیم نے اس کی روایت حضرت صہیب رومیؓ سے کی ہے ، لیکن اس کی سندبھی ضعیف ہے ۔ (زاد المعادلابن القیم : ۴؍۳۲۴۔۳۲۵)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ گائے کا گوشت کھانے کی ممانعت میں اس روایت کوپیش کرنا درست نہیں ہے ۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نے کبھی گائے کاگوشت نہیں کھایا ۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں :
ضَحّٰی رَسُوْلُ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِہِ بِالْبَقَرِ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کی طرف سے گایوں کی قربانی کی ۔‘‘
یہ روایت بخاری ( ۲۹۴) مسلم (۱۲۱۱) نسائی(۲۹۰) اورابن ماجہ(۲۹۶۳) میں آئی ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے گائے کی قربانی ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا گوشت صحابہ کرامؓ ہی نے کھایا ہوگا ۔ اس سے یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ عرب میں گائے نہیں ہوتی تھی۔
قرآن وحدیث میں محرمات (جن جانوروں کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے) کی صراحت کردی گئی ہے ۔ ان کے علاوہ دیگرجانوروں کا گوشت کھانا جائز قرار دیا گیا ہے ۔ سورۂ انعام میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے کہ جن چیزوں کواس نے حلال کیا ہے انہیں حرام ٹھہرانے والے خسارے میں ہیں (آیت۱۴۰:)۔ آگے اس نے بتایا ہے کہ جانوروں کواس نے اس لیےپیدا کیا ہے کہ ان سے سواری اورباربرداری کا کام لیا جائے، ان کا گوشت کھایا جائےاوران کی کھالوں سے فرش کا کام لیا جائے ۔ ساتھ ہی اس نے حکم دیا ہے کہ اس نے جوکچھ تمہیں رزق دیا ہے اس سے کھاؤ اورشیطان ، جو بہکانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ، اس کا کہنا نہ مانو (آیت : ۱۴۲)۔ آگے ان جانوروں کی تفصیل ہے جنہیں اللہ نے حلال قرار دیا ہے ۔ ان میں گا ئے کا بھی ذکر ہے ۔ ارشاد ہے :
وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ۰ۭ قُلْ ءٰۗالذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَـيَيْنِ ....... (الانعام۱۴۴:)
’’اور اسی طرح دواونٹ کی قسم سے ہیں اوردوگائے کی قسم سے ۔ پوچھو، ان کے نر اللہ نے حرام کیے ہیں یا مادہ .....‘‘
مسلمانوں کوگائے کا گوشت ترک کرنے کا مشورہ دینےکے بجائے ان نادان دوستوں کوچاہیے کہ ظلم کرنے والوں کومشورہ دیں کہ وہ اپنی جارحیت سے باز آجائیں اورملک کے تمام طبقات کواپنے عقا ئد ، تہذیب اورروایات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیں ۔ اگرکسی علاقے میں گائے کے ذبیحے پر پابندی کا قانون منظور اورنافذ ہو تواُس کا تدارک کیسے کیا جائے؟یہ ایک دوسرا موضوع ہے ، جس پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے۔