گم راہ فرقے اور سزائے جہنم

ایک سوال کے جواب میں آپ نے ’ایک فرقے کو جنتی اور دیگر فرقوں کو جہنمی بتانے والی حدیث صحیح ہے‘ کے زیرِ عنوان جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ الجھن پیدا کر رہا ہے۔ آپ نے جو احادیث تحریر فرمائی ہیں ان میں صاف صاف لکھا ہے کہ ایک فرقہ ہی جنت میں جائے گا، باقی تمام فرقے جہنم میں جائیں گے، لیکن آگے آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’یہ تمام فرقے دین سے خارج نہیں ہیں ۔‘‘ پوچھا گیا سوال صاف نہیں ہوا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ جن روایتوں میں یہ زائد جملہ ہے ’’صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، دیگر تمام فرقے جہنمی ہوں گے‘‘ وہ ضعیف ہیں ۔ اسی وجہ سے انھیں امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔ یہ بہتر تہتر فرقوں کا چرچا کچھ جماعتوں اور مسلکوں میں عام ہو رہا ہے۔ ہر کوئی اپنی روٹی پر دال کھینچ رہا ہے۔ اس لیے التماس ہے کہ اس حدیث کے سلسلے میں ہونے والے اشکالات دور فرمائیں ۔
جواب

قرآن و حدیث میں بہت سے مقامات پر مسلمانوں کو ہوشیار کیا گیا ہے کہ وہ گزشتہ امتوں کے نقش ِ قدم پر نہ چلیں ، جن گم راہیوں کا وہ شکار ہوئے ان سے بچیں ، جس طرح انھوں نے کفر کی روش اختیار کی، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ موڑا اور ان کے احکام کی سنی ان سنی کی، اس طرح کا ناپسندیدہ رویہ اختیار نہ کریں ۔ (آل عمران: ۱۵۶، الانفال: ۲۱، ۴۷، النحل: ۹۲، الاحزاب: ۶۹، الحشر: ۱۹) خاص طور پر انھیں گزشتہ امتوں کی طرح اختلاف و تفرقے میں پڑنے سے روکا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُط (آل عمران: ۱۰۵)
’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔‘‘
بہت سی احادیث میں بھی اختلاف و انتشار کی مذمت کی گئی ہے اور اتحاد و اتفاق پر زور دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ایسی بھی احادیث ہیں جن میں خبر دی گئی ہے کہ امت اسی طرح اختلافات کا شکار ہوگی جس طرح گزشتہ امتیں ہوئیں اور اسی طرح غلط راہوں پر چلے گی جس طرح گزشتہ امتیں چلی تھیں ۔ ان میں سے ایک زیرِ بحث حدیث بھی ہے۔
اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ ’’امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے، ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔‘‘ ترمذی کی ایک روایت (۲۶۴۱) میں ہے کہ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ وہ جنتی فرقہ کون ہوگا؟ تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: ’’ما انا علیہ و اصحابی‘‘ یعنی جو اس روش پر قائم ہوگا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں ۔ اس حدیث کا مطلب (جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا) یہ نہیں ہے کہ بہتر فرقے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائیں گے، وہ کبھی جنت میں نہ جاسکیں گے۔ مولانا سید احمد عروج قادریؒ نے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حدیث ِ مذکور کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس حدیث کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان دین میں بدعتیں رائج نہ کریں ، اپنی خواہشات ِ نفس پر نہ چلیں ، بل کہ کتاب و سنت کو رہنما بنائیں ، اسے مضبوطی سے تھامیں اور اس روش پر قائم رہیں جس پر حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ قائم تھے۔ جو شخص یا جو گروہ بھی اس راستے سے ہٹ جائے گا وہ گم راہ ہوجائے گا۔ یہ ظاہر ہے کہ گم راہی کے مدارج ہوتے ہیں ۔ ایک گم راہی ایسی ہوسکتی ہے جو کسی شخص یا گروہ کو دائرۂ اسلام ہی سے خارج کردے اور بعض اس سے کم درجے کی ہوسکتی ہے۔ ناجی اور جنتی ہونے کے دو مفہوم ہیں : ایک یہ کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے اور دوسرا یہ کہ دوزخ میں سزا بھگت کر جنت میں داخل کیا جائے۔ اس حدیث میں جس گروہ کے جنتی ہونے کا ذکر ہے وہ پہلے مفہوم میں ہے۔ جن بہتر فرقوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ دوزخ میں ہوں گے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ سب کے سب کافروں کی طرح مخلَّد فی النار ہوں گے۔ یہ حدیث اس مسئلے سے بحث نہیں کرتی کہ کون مخلَّد فی النار ہوگا اور کون نہیں ؟ اس کا فیصلہ دوسرے دلائل سے کیا جائے گا۔‘‘
(احکام و مسائل، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۱۹۹۷ء، ۱/۱۴۱)
دوسری جگہ فرماتے ہیں :
’’کسی اہل قبلہ گروہ کو کافر قرار دینے یا نہ دینے سے اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہے، بل کہ اس میں مسلمانوں کو اختلاف ِ عقائد و اعمال سے بچنے اور کتاب و سنت کی پیروی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔‘‘ (حوالہ سابق، ص: ۱۳۸)
یہ صحیح ہے کہ جن روایتوں میں یہ زائد جملہ آیا ہے انھیں بعض علما نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ان میں ابن ِ حزم(م ۴۵۶ھ) ابن الوزیر (م ۸۴۰ھ) شوکانی (م ۱۲۵۰ھ) اور نواب صدیق حسن خاں (م ۱۳۰۷ھ) خصوصیت سے قابل ِ ذکر ہیں ۔ وہیں دیگر بہت سے محقق اور معتبر علما نے انھیں صحیح قرار دیا ہے۔ ان میں حاکم (م ۴۰۵ھ)، ذہبی (م ۷۴۸ھ) ابن تیمیہ (م۷۲۸ھ)، شاطبی (م ۷۹۰ھ) اور عراقی (م ۸۰۷ھ) اہم ہیں ۔ محدث ِ عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی (م ۱۴۲۰ھ) نے اپنی کتاب سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس حدیث کے تمام طرق کو جمع کردیا ہے، اس کی سندوں پر مفصل بحث کی ہے اور انھیں صحیح قرار دیا ہے۔
(ملاحظہ کیجیے المجلد الاول، القسم الاول، ص ۴۰۴- ۴۱۴، حدیث نمبر: ۲۰۴)
یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ جن روایتوں میں یہ زائد جملہ ہے ان کے ضعف کی وجہ سے ہی امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے انھیں اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔ اولاً اس مضمون کی جن روایتوں میں یہ زائد جملہ نہیں ہے وہ بھی صحیحین میں مذکور نہیں ہیں ۔ ثانیاً کسی حدیث کا بخاری و مسلم میں مروی نہ ہونا اس کے ضعف کے اثبات کے لیے کافی نہیں ہے۔ امام بخاریؒ و امام مسلمؒ نے اپنی کتابوں میں صحیح احادیث اپنی مخصوص شرائط کے مطابق جمع کی ہیں ۔ ورنہ ان کی کتابوں کے علاوہ بھی بے شمار صحیح احادیث ہیں ۔ بہت سی صحیح احادیث ایسی بھی ہیں جو ان کی شرائط پر ہیں پھر بھی ان کی کتابوں میں جگہ نہیں پاسکی ہیں ۔ علما نے ’مستدرک علی الصحیحین‘ کے نام سے ان کے مجموعے تیار کیے ہیں ۔
عذاب ِ جہنم سے متعلق اہل السنۃوالجماعۃ کا کیا عقیدہ ہے؟ اس کی وضاحت علامہ سید سلیمان ندوی نے ان الفاظ میں کی ہے:
’’اس عقیدے کے مطابق گنہ گاروں کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جو کہ گنہ گار تھے، مگر دل میں ایمان رکھتے تھے۔ ایسے لوگ عذاب کے بغیر ہی یا عذاب کے بعد اللہ تعالیٰ کے عفو و کرم سے سرفراز ہوکر بالآخر جنت میں داخل ہوں گے۔ دوسرے وہ جو ہمیشہ شرک و کفر میں مبتلا رہے اور اس سے توبہ کیے اور ایمان لائے بغیر مرگئے۔ ایسے لوگوں کی بخشایش کبھی نہ ہوگی اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کردیے جائیں گے۔‘‘ (سیرت النبی، دار المصنفین، اعظم گڑھ، ۲۰۰۳ء، ۴/۵۸۸)
احادیث میں بعض ایسے اعمال کا تذکرہ ہے جن کا ارتکاب کرنے والوں کو جہنم کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ مثلاً تکبر کرنا، دوسروں کا مال ناحق ہڑپ کرلینا، سود کھانا، جان داروں کی تصویر بنانا، جانور کو تکلیف دینا، ریا کاری کرنا، سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا، سایہ دار درخت کاٹنا وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان اعمال بد کا ارتکاب کرنے والے ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیے جائیں گے، بل کہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ صاحب ایمان ہیں تو جہنم میں ان اعمال بد کی سزا پانے کے بعد اس سے نکال لیے جائیں گے اور ایمان کی بہ دولت انھیں جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ مولانا سید احمد عروج قادریؒ نے لکھا ہے:
’’احادیث کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ مختلف قسم کی نیکیوں کی نسبت جنت کی طرف اور مختلف قسم کی برائیوں کی نسبت دوزخ کی طرف کی گئی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنت نیکیوں کا گھر ہے اور دوزخ برائیوں کا گھر ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو نیکیوں کی طرف لپکنا چاہیے اور برائیوں سے بھاگنا چاہیے۔ ترغیب و ترہیب کے اس انداز سے ذخیرۂ احادیث بھرا ہوا ہے۔ جس عمل ِ خیر پر جنت کی بشارت اور جس عمل ِ شر پر دوزخ کی وعید سنائی گئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ تنہا وہ عمل ِ خیر کسی کو جنت کا اولین مستحق اور تنہا وہ عمل ِ شر کسی کو دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے۔‘‘
(احکام و مسائل، ۱/۱۳۸- ۱۳۹)
اللہ کے رسول ﷺ نے ہدایت کی جو راہ واضح کی ہے اور جس پر آپؐ کے اصحاب نے چل کر دکھایا ہے، اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اس کا انکار کرتا ہے، اور اس سے مختلف راہ اختیار کرتا ہے، تو اس کی گم راہی میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ایسے شخص کا انجام آخرت میں بڑا درد ناک ہوگا۔ اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص اساسیات ِ اسلام پر ایمان رکھتا ہے، لیکن بعض اعمال ِ بد میں مبتلا ہے تو آخرت میں یا تو اللہ تعالیٰ اپنی شان ِ کریمی سے اسے معاف کرکے ابتدا ہی میں اسے جنت میں داخل کردے گا، یا اپنے گناہوں کی سزا پا کر وہ اس کا مستحق بنے گا۔ مولانا عروج قادری فرماتے ہیں :
’’اس حقیقت کو سامنے رکھ کر بہتر فرقوں والی حدیث کا بھی صحیح مطلب سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان کہلانے والا فرقہ جان بوجھ کر اس عقیدہ و عمل کو ترک کردے جس پر نبی ﷺ اور آپؐ کے صحابہ تھے تو پھر وہ مسلمان کس بنیاد پر باقی رہے گا؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دوسرے دلائل سے یہ فیصلہ ہوگا کہ اس کی گم راہی کس درجے کی ہے؟ (حوالہ سابق، ص: ۱۳۹)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ اس حدیث کو بنیاد بنا کر امت کے مختلف فرقوں کے خلاف و کفر و فسق کے فتوے صادر کرنا صحیح نہیں اور نہ عقلی اشکالات پیدا کرکے اس حدیث کو ضعیف یا موضوع قرار دینا درست ہے۔