جواب
ابلیس جب بارگاہِ الٰہی سے معتوب ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا تو اس نے چیلنج کے انداز میں کہا تھا:
لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَo ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِھِمْلا وَلاَ تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَo (الاعراف:۱۶-۱۷)
’’میں اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘
اس بنا پر یہ عین ممکن ہے کہ شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ کے کسی بندے سے گناہ سرزد ہوجائے۔ لیکن توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے۔ اس لیے اللہ کے گنہ گار بندوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن کہتا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo (الزمر:۵۳)
’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو غفور رحیم ہے۔‘‘
گناہ کا صدور ا نسان کو اللہ تعالیٰ کا مبغوض بندہ نہیں بناتا، بلکہ گناہ پر اصرار اور ڈھٹائی کرنے اور توبہ و استغفار نہ کرنے سے وہ راندہ ٔ درگاہِ الٰہی ہوتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
کُلَّ بَنِیْٓ آدَمَ خَطَّائٌ وَ خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ۔
(جامع ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب المؤمن یری ذنبہ کالجبل فوقہ، حدیث: ۲۵۰۱، سنن ابن ماجہ، ابواب الزہد باب ذکر التوبۃ، حدیث:۴۲۵۱)
’’بنو آدم میں ہر ایک سے بہت زیادہ خطائیں سرزد ہوتی ہیں ۔ ان میں بہتر لوگ وہ ہیں ، جو توبہ کرنے والے ہیں ۔‘‘
توبہ کی اہمیت اور مطلوبیت پر بہت سی احادیث ہیں ۔ ان میں ایک حدیث وہ بھی ہے، جس کا آپ نے تذکرہ کیا ہے۔ وہ حدیث قدسی ہے۔ یعنی وہ بات رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کی ہے۔ پوری حدیث یہ ہے:
مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا وَ اَزْیَدُ، وَ مَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَجَزَاؤُہُ سَیِّئَۃً مِثْلُھَا اَوْ اَعْفِرُ، وَ مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّیْ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ ذِرَاعًا، وَ مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّیْ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا، وَ مَنْ اَتَانِی یَمْشِیْ اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً وَ مَنْ لَقِیَنِیْ بِقُرَابِ الْاَرْضِ خَطیْئَۃً لاَ یُشْرِکُ بِیْ لَقِیْتُہٗ بِمِثْلِھَا مَغْفِرَۃً۔ (صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب فضل الذکر والدعاء والتقرب الی اللّٰہ تعالٰی و حسن الظن بہ، حدیث: ۲۶۸۷)
’’جو شخص کوئی نیکی کرے گا اسے اس کا دس گنا، بلکہ اس سے زیادہ اجر ملے گا اور جو شخص کوئی برائی کرے گا اسے اسی کے بہ قدر بدلہ دیا جائے گا یا میں اسے معاف کردوں گا۔ جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوگا میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوں گا۔ جو مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوگا میں اس کی طرف دو ہاتھ آگے بڑھوں گا۔ جو میری طرف چل کر آئے گا، میں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا۔ جو شخص پوری روئے زمین کے بہ قدر خطاؤں کے ساتھ میرے پاس آئے گا، اس حال میں کہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، میں اس کے بہ قدر مغفرت کے ساتھ اس سے ملاقات کروں گا۔‘‘
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ گناہ کی کوئی اہمیت نہیں اور آدمی جسارت کرکے چھوٹے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ ایک مومن سے مطلوب یہ ہے کہ وہ حتی الامکان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ لیکن اگر بشری کم زوری کی بنا پر اس سے کبھی کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو تنبہ ہوتے ہی فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :
’’مومن سے گناہ کا ارتکاب ہوجائے تو وہ اتنا بوجھ محسوس کرتا ہے گویا کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈر رہا ہے کہ کہیں وہ پہاڑ اس کے اوپر نہ گرجائے اور فاجر گناہ کرتا ہے تو اس پر اس کا مطلق اثر نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ناک پر مکھی بیٹھی تھی، ہانک دی۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب التوبۃ، حدیث: ۶۳۰۸)
لیکن توبہ کے لیے محض زبان سے لفظ ’توبہ‘ دہرالینا کافی نہیں ہے، بلکہ پورے احساس و شعور کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع و انابت کرنی چاہیے۔ امام نوویؒ نے لکھا ہے: ’’توبہ کی تین شرطیں ہیں : (۱)اس معصیت سے بالکل الگ تھلگ ہوجائے (۲)اس پر نادم ہو (۳) پختہ عزم کرے کہ پھر اس کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ اگر اس معصیت سے کسی انسان کی حق تلفی ہوئی ہو تو مذکورہ تین شرطوں کے ساتھ ایک چوتھی شرط یہ بھی ہے کہ اس سے بری ہوجائے، اگر اس کا مال لیا ہو تو واپس کردے، کوئی الزام لگایا ہو یا غیبت کی ہو تو اس سے معافی مانگ لے۔‘‘
(ریاض الصالحین، باب التوبۃ، ص:۱۱،۱۲)