ہم نے ایک لڑکے کو اس کے ماں باپ کی رضامندی سے گود لیا تھا – قانونی کارروائی کی گئی تھی اور اس کے باپ کے نام کی جگہ میرے شوہر کا اور ماں کے نام کی جگہ میرا نام لکھا گیا تھا۔ اب وہ لڑکا۱۴برس کا ہو گیا ہے۔ جب سے اسے پتہ چلا ہے کہ اس کے حقیقی ماں باپ کوئی اور ہیں، وہ خاموش رہنے لگا ہے۔ وہ طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) سے وابستہ ہے اور دینی اعتبار سے حسّاس ہے۔ ولدیت کی تبدیلی پر ناراض ہے۔ اس کے حقیقی والدین اب بھی چاہتے ہیں کہ اس کے باپ کے نام کی جگہ میرے شوہر ہی کا نام رہے، تاکہ ہماری پراپرٹی میں اسے وراثت ملے۔ اس بنا پر بھی وہ لڑکا ہم سے ناراض ہے۔ اس کی ناراضی کی وجہ سے میں بیمار رہنے لگی ہوں۔ اس عمل پر کیا ہم گناہ گار ہیں ؟ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ براہ کرم اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیے۔
جواب
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے۔ قران مجید میں ایک نعمتِ الٰہی کے طور پر اس کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ یہ بھی کہاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے جنہیں چاہتا ہے صرف بیٹیاں دیتا ہے، جنہیں چاہتا ہے صرف بیٹوں سے نوازتا ہے، جنہیں چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں بخشتا ہے اور جنہیں چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔ (الشوریٰ۴۸:۴۹)
اس دنیا میں کون اولاد سے محروم ہوگا اور کون اس سے نوازا جائے گا اور کس شکل میں اس کی یہ خواہش پوری ہوگی؟ اس کا علم صرف اللہ تعالٰی کو ہے اور وہ اس کی پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
صاحبِ اولاد ہونا ہر جوڑے کی فطری خواہش ہوتی ہے۔ بسا اوقات زوجین میں سے کسی ایک یا دونوں کے تناسلی اعضا میں معمولی نقص کے سبب استقرارِ حمل نہیں ہو پاتا – علاجی تدابیر سے ایسے کسی نقص کو دوٗر کیا جا سکتا ہے، لیکن کبھی زوجین نارمل ہونے کے باوجود اولاد سے محروم رہتے ہیں۔ اس صورت میں مومن جوڑے کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی بہ رضا رہنا چاہیے۔
اسلام میں اولاد سے محروم جوڑوں کے لیے کسی بچے یا بچی کو گود لینے کی اجازت ہے۔ وہ اپنی ممتا کے جذبے کی تسکین یا کسی اور ضرورت سے خاندان یا اس سے باہر کے کسی بچے یا بچی کو گود لے سکتے ہیں اور اپنے یہاں اس کی پرورش و پرداخت کر سکتے ہیں، لیکن اس صورت میں قرآن مجید کا صریح حکم ہے کہ اس کی ولدیت تبدیل نہ کی جائے اور اس کے باپ کے نام کی جگہ حقیقی باپ کا نام ہی لکھوایا جائے۔ گود لینے والا اس کی ولدیت کو اپنی جانب منسوب نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
وَ مَا جَعَلَ اَدعِيَآءَكُم اَبنَآءَكُم ؕ ذٰ لِكُم قَولُـكُم بِاَ فوَاهِكُم ؕ وَاللّٰهُ يَقُولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبِيلَ، اُدعُوهُم لِاٰبَآئِهِم هُوَ اَقسَطُ عِندَ اللّٰهِ ( الاحزاب۳۔۴)
ترجمہ: اور نہ اللہ نے تمہارے منھ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منھ سے نکال دیتے ہو اور اللہ حق بات کہتا ہے اور وہی صحیح راہ کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔ منھ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔
اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ اس کا اثر اسلام کے دیگر دو اہم احکام پر پڑتا ہے، وہ ہیں نکاح اور وراثت کے احکام۔ گود لیا ہوا بچہ یا بچی اگر حقیقی اولاد کا درجہ پالے تو اس کا نکاح گود لینے والے کی دوسری اولاد (اگر ہو) سے نہیں ہو سکتا، جب کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح گود لینے والے کی وراثت میں اس کا کوئی حصہ نہیں، جب کہ حقیقی اولاد کا درجہ ملنے کے بعد وہ مستحقِ وراثت بن جاتا ہے۔
گود لینے کے لیے اولاد کا لین دین کرنے والے اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کا معاملہ زندگی بھر چُھپا رہے گا، گود لیے ہوئے بچے کو اس کی خبر ہو پائے گی نہ خاندان اور سماج کو اس کی بھنک لگے گی، لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ معاملہ کھل جاتا ہے تو شرمندگی اور رسوائی ان کے ہاتھ آتی ہے اور گود لیے ہوئے بچے پربھی نفسیاتی طور سے بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ وہ حقیقی ماں باپ سے متنفّر ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اسے بُوجھ سمجھ کر دوسروں کے حوالے کر دیا اور گود لینے والے جوڑے کی محبت بھی اس کے دل سے نکل جاتی ہے کہ انہوں نے خود غرضی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی ولدیت تبدیل کردی۔ مذکورہ کیس میں ایسا ہی ہوا ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اگر دستاویزات میں ولدیت درست کی جا سکتی ہو تو اس کی کوشش کی جانی چاہیے۔ گود لینے والے سرپرست کی حیثیت سے اپنا نام لکھوائیں، ان سے جو غلطی ہو گئی ہے اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کریں اور لڑکے کی کونسلنگ کریں یا کروائیں، جس سے اس پر یہ بات واضح ہو جائے کہ گود لینے کی وجہ حقیقی والدین کی اس سے عدمِ محبت نہیں تھی، بلکہ ایک سماجی ضرورت سے ایسا کیا گیا تھا اور چوں کہ اب خلافِ شریعت عمل کی اصلاح کر لی گئی ہے اس لیے اس کو حقیقی والدین اور گود لینے والوں کے بارے میں اپنے دل کی کدورت دوٗر کر لینی چاہیے۔
گود لیے گئے بچے یا بچی کا وراثت میں حصہ نہیں ہوتا، لیکن ہبہ (Gift) یا وصیت(Will) کے ذریعے اسے فائدہ پہنچایا جا سکتاہے۔آدمی کو اجازت ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کسی کو جتنا چاہے ہبہ کر سکتا ہے، البتہ ہبہ مکمل ہونے کے لیے قبضہ دلانا شرط ہے۔ اسی طرح کسی غیر وارث کے لیے کل مال کے ایک تہائی تک کی وصیت کی جاسکتی ہے –
اہل ایمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دین کے تمام احکام پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور اپنی خواہش کی تسکین کے لیے کسی ایسے غلط کام کا ارتکاب نہ کریں جو اللہ کی ناراضی کو دعوت دینے والا ہو –
July 2025