جواب
اللہ کے رسولﷺ سے غایت درجہ محبت کی دلیل یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کے روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے سلسلے میں بھی یہ جاننے کی کوشش کرے کہ انھیں آپ کس طرح انجام دیتے تھے؟ اور پھر اسی طرح خود بھی عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ یہ جذبہ ہر مسلمان کے دل میں پیدا فرمائے۔
ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :
کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یُحِبُّ التَّیَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِیْ شَانِہٖ کُلِّہٖ، فِیْ طُھُوْرِہٖ وَ تَرَجُّلِہٖ وَ تَنَعُّلِہٖ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب التیمّن فی دخول المسجد وغیرہ، حدیث:۴۲۶، صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب التیمن فی الطھور وغیرہ، حدیث:۲۶۸)
’’نبیﷺ سے جہاں تک ممکن ہوتا تھا، اپنا ہر کام، مثلاً طہارت (وضو و غسل)، کنگھی کرنا، جوتے پہننا وغیرہ، داہنی طرف سے شروع کرتے تھے۔‘‘
امام بخاریؒ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں مختلف سندوں سے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ پانچ مقامات پر روایت کیا ہے (۱۶۸، ۴۲۶، ۵۳۸۰، ۵۸۵۴، ۵۹۲۶) اور اس کے ذریعے وضو، غسل، مسجد میں داخلہ، کھانا کھانے، جوتا پہننے اور کنگھی کرنے میں داہنی طرف سے آغاز کرنے کا اثبات کیا ہے۔
بعض اور احادیث بھی ہیں ، جن میں صراحت ہے کہ آں حضرتﷺ بعض کاموں کو داہنی طرف سے انجام دیتے تھے۔ مثلاً آپؐ داہنے ہاتھ سے کھانا کھاتے تھے۔ (مسند احمد، ۶/۱۶۵، ۲۸۷) اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے۔ (بخاری:۵۳۷۶) آپ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ (نسائی:۵۲۰۶،۵۲۰۷، ابن ماجہ:۳۶۴۷) آپؐنے فرمایا کہ جب کپڑا پہنو یا وضو کرو تو داہنیطرف سے آغاز کرو۔ (ابو داؤد:۴۱۴۱) آپؐ قمیص پہنتے تو داہنی طرف سے آغاز کرتے۔ (ترمذی:۱۷۶۶) آپؐغسل کرتے تو داہنیطرف سے ابتدا کرتے۔ (مسلم:۷۲۹) دوسری طرف بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت ﷺ داہنے ہاتھ سے بعض کاموں کی انجام دہی کو ناپسند کرتے تھے، مثلاً آپؐ نے رفع حاجت کے بعد داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے۔ (بخاری:۱۵۴، مسلم:۶۱۳، ۶۱۵، ابو داؤد: ۳۱۱۷، نسائی:۴۰، ابن ماجہ: ۳۱۰،۳۱۲) اسی طرح مسجد سے نکلتے وقت بھی آپ پہلے بایاں پیر نکالتے تھے۔ (مستدرک حاکم بہ حوالہ فتح الباری ۱/۵۲۳)
ام المومنین حضرت حفصہؓ فرماتی ہیں :
اِنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ یَجْعَلُ یَمِیْنَہٗ لِطَعَامِہٖ وَ شَرَابِہٖ وَ ثِیَابِہٖ وَ یَجْعَلُ شِمَالَہٗ لِمَا سِوٰی ذٰلِکَ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، حدیث:۳۲)
’’نبیﷺ کھانا کھانے، پانی پینے اور کپڑے پہننے کے لیے دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے، بائیں ہاتھ سے دوسرے کام کرتے تھے۔‘‘
اس مضمون کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں ۔ ان سے علماء نے ایک قاعدہ مستنبط کیا ہے۔ اس کا تذکرہ امام نوویؒ نے یوں کیا ہے:
’’شریعت کا ایک مستقل قاعدہ یہ ہے کہ جو کام ’تکریم و تشریف‘ کے قبیل کے (یعنی اچھے کام) ہوں ، مثلاً: کپڑے، پاجامہ، موزے پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، ناخن تراشنا، مونچھ کترنا، بال سنوارنا، نماز میں سلام پھیرنا، اعضائے طہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا پینا، مصافحہ کرنا، حجر اسود کا استلام کرنا اور ان جیسے دیگر کام، انھیں داہنی جانب سے انجام دینا مستحب ہے۔ اور جو کام اس کے برعکس ہوں مثلاً بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، ناک صاف کرنا، استنجاء کرنا، کپڑے، پاجامہ، موزہ اتارنا وغیرہ ان کا آغاز بائیں جانب سے کرنا مستحب ہے۔‘‘
( شرح صحیح مسلم، ۲/۱۶۰)
گھر سے نکلتے وقت کون سا پیر پہلے باہر نکالنا چاہیے؟ اس ضمن میں آں حضرت ﷺ کا کیا معمول تھا؟ اس سلسلے میں احادیث میں مجھے کوئی صراحت نہیں مل سکی۔ گھر کو مسجد پر قیاس کرنا صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ جس حدیث کی طرف آپ نے ایک عالم دین کے حوالے سے اشارہ کیا ہے، وہ بھی مجھے نہیں مل سکی۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی حدیث کے عموم کو دیکھتے ہوئے گھر سے نکلتے وقت دایاں پیر پہلے باہر نکالنا چاہیے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر سے نکلتے وقت اور گھر میں داخل ہوتے وقت اذکار اور دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ یہاں گھر سے نکلتے وقت کی دو دعائیں نقل کی جا رہی ہیں ۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں ۔ رسول اللہﷺ جب بھی میرے گھر سے نکلتے تھے، یہ دعا پڑھتے تھے:
بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَضِلَّ اَوْ اُضَلَّ، اَوْ اَزِلَّ اَوْ اُزَلَّ اَوْ اَظْلِمَ اَوْ اُظْلَمَ، اَوْ اَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیَّ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب ما یقوم اذا خرج من بیتہ، حدیث: ۵۰۹۴، سنن ترمذی، ابواب الدعوات، حدیث:۳۴۲۳)
’’اللہ کے نام سے۔ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا۔ اے اللہ! میں تجھ سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ بھٹک جاؤں یا کوئی مجھے بھٹکادے، پھسل جاؤں یا کوئی مجھے پھسلادے، میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے، میں کسی کے ساتھ ناشائستگی سے پیش آؤں یا کوئی میرے ساتھ نازیبا برتاؤ کرے۔‘‘
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَالَ یَعْنِیْ اِذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِہٖ بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ یُقَالُ لَہٗ کُفِیْتَ وَ وُقِیْتَ وَ تَنَحَّی عَنْہُ الشَّیْطَانُ۔ (جامع ترمذی، ابواب الدعوات، باب ما یقول اذا خرج من بیتہ، حدیث:۳۴۲۲، سنن ابی داؤد، کتاب الادب، حدیث:۵۰۹۵)
’’جو شخص گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھتا ہے: بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ (اللہ کے نام سے، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا، اللہ کے علاوہ اور کوئی طاقت و قوت کا مالک نہیں ) تو اس سے کہا جاتاہے: تم راہ یاب ہوگئے، اللہ تمھارے لیے کافی ہے، تم شر سے محفوظ ہوگئے اور شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے۔‘‘