میرے والد صاحب کا چند ماہ پہلے انتقال ہوا ہے۔ گذشتہ برس والدہ کا اور اس سے ایک برس قبل میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوا تھا۔ ہم چار بہنیں اور دو بھائی تھے۔ اب ایک بھائی اور ہم چار بہنیں زندہ ہیں۔ میری دادی بھی باحیات ہیں۔ وراثت کی تقسیم سے متعلق میرے چند سوالات ہیں۔ براہ کرم ان کے جوابات مرحمت فرمائیے :
۱۔ کیا مرحوم بھائی کے بچوں کا مال ِ وراثت میں کچھ حصہ ہوگا؟
۲۔ وراثت کس اعتبار سے تقسیم ہوگی ؟اور کس کا کتنا حصہ ہوگا؟
۳۔ والد صاحب کا ایک باغ ۶؍ایکڑ کا تھا۔ اس میں سے ایک ایکڑ انھوں نے ایک موقع پر میرے مرحوم بھائی کو فروخت کردیا تھا۔ یہ معاملہ زبانی ہوا تھا۔ اس کی کوئی تحریر موجود نہیں ہے۔ کیا اس معاملے کا اعتبار کیا جائے گا؟ وراثت پورے باغ میں نافذ ہوگی یا ایک ایکڑ چھوڑ کر؟
۴۔ والد صاحب نے حکومت کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے باغ میری والدہ کے نام کردیاتھا۔ اس باغ کی وراثت میں میری دادی کا حصہ ہوگا یا نہیں ؟
۵۔ میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنے مرحوم بیٹے کے بچوں کو دو پلاٹ دے دیے تھے۔ وہ مزید کچھ دینے کو کہاکرتے تھے۔ کیاان کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے ہمارے لیے اپنے مرحوم بھائی کے بچوں کو کچھ دینا ضروری ہے۔
۶۔ میری دادی کہتی رہتی ہیں کہ میں اپنا حصہ اپنے پوتے کے بچوں کو دے دوں گی۔ کیا اسے ان کی وصیت مان لیا جائے؟
جواب
وراثت سے متعلق آپ کے دریافت کردہ سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :
۱۔ آپ کے جس بھائی کا انتقال والدین کی زندگی میں ہوگیا، اس کا حصہ ان کی وراثت میں نہیں ہوگا۔ اس لیے آپ کے مرحوم بھائی کے بچوں کو وراثت میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ البتہ آپ بھائی بہن بہ طور ہمدردی و رشتہ داری جوکچھ بھی دیناچاہیں اس کی اجازت ہے اور وہ ان شاء اللہ کارِ ثواب شمار ہوگا۔
۲۔ اپنے والد کی کل جائیداد کی مالیت نکالیں۔ اس کی تقسیم ان کے ورثہ میں حسب ذیل ہوگی:
ماں (آپ کی دادی) : 16.7%
چار بیٹیاں : 55.6% ( ہر بیٹی کا حصہ : 13.9%)
ایک بیٹا : 27.8%
۳۔ باغ (۶؍ایکڑ)میں سے ایک ایکڑ آپ کے والد نے آپ کے بھائی کو فروخت کردیاتھا۔ اگرچہ یہ معاملہ زبانی ہواتھا، لیکن اس کا اعتبار کیاجائے گا اور مرحوم بھائی کے بچے اس کے مالک سمجھے جائیں گے، باقی ۵؍ایکڑ میں وراثت نافذ ہوگی۔
۴۔ آپ نے لکھاہے کہ آپ کے والد نے حکومت کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے باغ آپ کی والدہ کے نام کیاتھا۔ اس صورت میں اگرچہ باغ آپ کی والدہ کے نام سے ہے، لیکن شرعی طورپر وہ آپ کے والد صاحب کا ہی سمجھاجائے گا۔ اس بناپر اس کی وراثت میں آپ کی دادی کا بھی حصہ ہوگا۔ (شرط یہ ہے کہ آپ کی والدہ کو یہ بات تسلیم ہو کہ انھوں نے باغ ان کے نام صرف اس غرض سے کیا تھا، یا آپ کے پاس اس کے معتبر شواہد ہوں)
۵۔ آپ کے والد نے اپنی زندگی میں اپنے مرحوم بیٹے کے بچوں کے نام دو پلاٹ کردیے تھے۔ وہ بچے ان کے مالک سمجھے جائیں گے۔ وہ جائیداد میں انھیں مزید حصہ دینے کی بات کرتے تھے، عملاً انھوں نے کچھ ہبہ نہیں کیاتھا، اس لیے وعدہ کا اعتبار نہ ہوگا۔ ہبہ (Gift) مستقبل کے وعدے پر نہیں ہوتا۔ البتہ آپ لوگ اپنی مرضی سے ہمدردی میں یا رشتہ داری کالحاظ کرتے ہوئے کچھ دیناچاہیں تو دے سکتے ہیں۔
۶۔ آپ کی دادی کا بھی یہ کہناکہ میں اپنا حصہ اپنے پوتے کے بچوں کو دے دوں گی، کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ انھیں جو کچھ دیناہو، دے دیں۔ وہ ان بچوں کو جتنا چاہیں ہبہ کرسکتی ہیں، یا اپنی ملکیت میں سے ایک تہائی تک کی وصیت کرسکتی ہیں۔ انھیں جو کچھ کرنا ہو، کردیں، مستقبل پر نہ ٹالیں۔
October 2023