ایک صاحب کا انتقال ہوا۔ان کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ وہ صاحب پراپرٹی کا بزنس کرتے تھے۔ انھوں نے مختلف مواقع پر جو زمینیں خریدیں ان میں سے کچھ کی رجسٹری اپنی بیٹیوں اور ایک بیٹے کے نام سے کروائی۔ دوسرے بیٹے کے نام سے کسی زمین کی رجسٹری اس لیے نہیں ہو سکی، کیوں کہ ایک مرتبہ جب انھوں نے اس کے نام سے رجسٹری کا ارادہ کیا تو اس نے اعتراض کر دیا کہ یہ زمین میرے بھائی یا بہنوں کے نام رجسٹری کی جانے والی زمینوں سے کم ہے۔ انھوں نے رجسٹری کراتے وقت کبھی اپنی کسی اولاد سے کہا کہ یہ میں تم کو دے رہا ہوں، تمھارے بچوں اور تمھارے کام آئے گی اور کسی سے کہا کہ یہ میری ملکیت ہے، صرف قانونی ضرورت سے اس میں تمھارا نام شامل کیا ہے۔ انھوں نے جو رجسٹریاں کروائیں ان کے کاغذات اپنے پاس رکھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بچوں میں تنازع ہوگیا ہے۔ ان کے درمیان اس بات پر تو اتفاق ہے کہ جو پراپرٹی والد مرحوم کے نام سے ہے وہ ان کے ورثہ میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوجائے، لیکن جو پراپرٹی ان کی اولاد کے نام سے ہے، اس کے سلسلے میں ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ جو پراپرٹی جس کے نام سے ہے، وہ اس کا مالک ہے، اس لیے کہ والد صاحب نے اپنی زندگی میں اسے ہبہ کر دیا تھا، جب کہ بعض کہتے ہیں کہ والد صاحب نے کسی کو ہبہ نہیں کیا تھا، بلکہ محض قانونی ضرورت سے اس کا نام شامل کیا تھا، اس لیے کل جائیداد کو ترکہ سمجھ کر تقسیم کیا جائے۔
براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ کون سی بات درست ہے؟
جواب
زمین جائیداد یا کوئی دوسری چیز ایک شخص کی ملکیت سے دوسرے کی ملکیت میں منتقل ہونے کی تین صورتیں ہوتی ہیں ہبہ، وصیت اور وراثت۔ کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی مملوکہ تمام چیزیں اس کے ورثہ کے درمیان شریعت کی بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق تقسیم ہوتی ہیں۔ اس سے قبل وصیت(Will) نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (النساء۱۱۔۱۲) وصیت کے تعلق سے دو احکام ہیں ایک یہ کہ ورثہ کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔ اسلامی شریعت نے ہر شخص کو اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی کوئی چیز دوسرے کو ہبہ (Gift) کرنے کی اجازت دی ہے۔ اگر وہ اس کا مالک ہے تو اسے اس میں تصرف کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ وہ اپنی زمین جائیداد وقف کر سکتا ہے، اپنے کسی اہل ِتعلق یا رشتے دار کو دے سکتا ہے اور اپنی اولاد کے درمیان بھی تقسیم کر سکتا ہے۔
اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کی صورت میں شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ سب کو برابر دیا جائے، انھیں دینے میں کمی بیشی نہ کی جائے۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا ’’میں نے اپنے اِس بیٹے کو فلاں چیز دی ہے۔ آپؐ نے دریافت کیا ’’کیا تم نے یہ چیز اپنی دوسری اولادوں کو بھی دی ہے؟ انھوں نے جواب دیا نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر اسے واپس لے لو۔‘‘ (بخاری ۲۵۸۷، مسلم ۱۶۲۳)
اسی حدیث میں ہے کہ آپ نے مزید یہ بھی فرمایا
فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْدِلُوا بَیْنَ اَوْلَادِکُمْ
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام لو۔‘‘
ہبہ کے لیے دو شرطیں اہم ہیں پہلی شرط ایجاب و قبول ہے، یعنی ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں نے تم کو فلاں چیز ہبہ کی ہے اور دوسرا اسے قبول کر لے۔ دوسری شرط قبضہ ہے۔ فقہا (احناف اور شوافع) کے نزدیک جس شخص کو کوئی چیز ہبہ کی گئی ہے، جب تک وہ اس پر قبضہ نہ کر لے، اس وقت تک ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔ اسے فقہی اصطلاح میں ’تخلیہ و تسلیم‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ چیز ہبہ کرنے والے کے قبضے سے نکل جائے اور جس کو ہبہ کی گئی ہے اس کے قبضے میں پہنچ جائے۔
سوال میں جو تفصیل ذکر کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ صورت میں ہبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ والد مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں سے بعض کے نام زمینوں کی رجسٹری میں شامل کیے، لیکن انھیں ان پر قبضہ نہیں دیا، بلکہ رجسٹری کے کاغذات اپنی تحویل میں ہی رکھے۔ اسی طرح اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ان کے درمیان برابر تقسیم نہیں کی گئی اور ایک بیٹے کو کچھ بھی ہبہ نہیں کیا گیا۔
اس لیے مقاصدِ شریعت کی تکمیل اور میت کے حق میں ورثہ کی خیر خواہی کا تقاضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمینوں کی جو رجسٹریاں بعض ورثہ کے نام سے ہیں انھیں ہبہ نہ مانا جائے، بلکہ پوری جائیداد کی تقسیم وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق کی جائے۔
یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مال و دولت اور اولاد کے سلسلے میں انسان کو احتیاط اور خیر خواہی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کا مال اولاد کے لیے فتنہ نہ بنے، اس کے مرنے کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے مال کو لے کر اولاد میں تنازعات نہ کھڑے ہوں اور اس کا مال شریعت کی روح اور مقاصد کے مطابق صرف ہو، ان باتوں کا خیال رکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ باپ اگر اولاد کو یا کسی دوسرے کو کچھ ہبہ کرے تو اس کی واضح تحریر بنائے اور معتبر گواہیوں کے ساتھ ہبہ کرے۔کسی کے حق میں وصیت کرے تو وہ بھی تحریری شکل میں گواہیوں کے ساتھ ہو۔ اگر وہ کوئی چیز ہبہ نہیں کرتا ہے، لیکن کسی بھی وجہ سے اپنی اولاد میں سے کسی کے نام یا کسی اور فرد کے نام کرتا ہے، تو اس کی بھی تحریری وضاحت اور گواہیاں ہونی چاہئیں۔ غرض اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وارثوں کے درمیان کسی قسم کے کنفیوژن کی گنجائش نہ رہے۔