جواب
عاشورا یعنی ۱۰؍ محرم الحرام کے روزے کے سلسلے میں کثرت سے احادیث مروی ہیں ۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام جاہلیت میں قریش بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے، اس لیے کہ اسی دن خانۂ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کا بھی اس دن روزہ رکھنے کا معمول تھا، جو ہجرت مدینہ کے بعد بھی جاری رہا، بلکہ آپؐ نے صحابۂ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ہجرت کے دوسرے سال جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو اختیار دے دیا کہ چاہیں عاشورا کا روزہ رکھیں ، چاہیں نہ رکھیں ۔ آپؐ نے فرمایا:
مَنْ شَائَ اَنْ یَّصُوْمَہٗ فَلْیَصُمْہُ وَ مَنْ شَائَ اَنْ یَّتْرُکَہٗ فَلْیَتْرُکْہُ ۔(۱)
’’جو شخص اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ رکھے اور جو نہ رکھنا چاہے وہ نہ رکھے۔‘‘
بعض احادیث میں ہے کہ ’’مدینہ میں رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ یہود بھی ۱۰؍ محرم کو روزہ رکھتے ہیں ، تو آپؐنے ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی۔ انھوں نے جواب دیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرقاب کیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اس کے مظالم سے نجات دی تھی، اس کے شکرانے کے طور پر ہم روزہ رکھتے ہیں ۔ آپؐ نے جواب دیا: اس پر شکر ادا کرنے کے ہم زیادہ حق دار ہیں ۔‘‘ (۲)
ایک حدیث میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں ایک موقع پر فرمایا تھا:
لَئِنْ بَقِیْتُ اِلٰی قَابِلٍ لَاَصُوْمَنَّ التَّاسِعَ ۔(۳)
’’اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو ۹؍ محرم کو ضرور روزہ رکھوں گا۔‘‘
لیکن آپؐ کی وفات اس سے قبل ہی ہوگئی، اس لیے آپؐ کا یہ ارادہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ اس حدیث کی بنا پر علماء نے محرم کی دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھنا مستحب قرار دیا ہے۔ اس کا کیا مقصد ہے؟ اس سلسلے میں دو اقوال منقول ہیں :
(۱) اس کا مقصد یہود کی مخالفت کرنا اور ان کی مشابہت سے بچنا ہے۔
اس قول کی تائید حضرت ابن عباسؓ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
صُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَائَ وَ خَالِفُوْا فِیْہِ الْیَھُوْدَ، وَ صُوْمُوْا قَبْلَہٗ یَوْمًا اَوْ بَعْدَہٗ یَوْمًا ۔(۱)
’’عاشورا کے دن روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ اس کے لیے اس سے قبل یا بعد کے دن بھی روزہ رکھ لو۔‘‘
اس حدیث کو ہیثمیؒ نے مجمع الزوائد (۳؍۱۸۸) میں روایت کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے: ’’اس کی روایت احمد اور بزار نے بھی کی ہے، لیکن اس کی سند میں ایک راوی محمد بن ابی لیلیٰ ہے، جس پر محدثین نے کلام کیا ہے۔‘‘
(۲) اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ یوم عاشورا کا روزہ تنہا نہ رکھا جائے، جس طرح صرف جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ (۲)
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒنے بعض اصحاب علم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’عاشورا کے روزے کے تین درجے ہیں : یہ کہ کم از کم ۱۰؍ محرم کو روزہ رکھا جائے۔ اس سے بہتر ہے کہ اس کے ساتھ ۹؍ محرم کو بھی شامل کرلیا جائے۔ اور سب سے اچھا یہ ہے کہ محرم کی ۹، ۱۰، ۱۱ تینوں تاریخوں میں روزہ رکھا جائے۔‘‘ (۳)
احادیث میں عاشورا کے روزے کی فضیلت مذکور ہے۔ حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
صِیَامُ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ اِنِّیْ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِیْ قَبْلَہٗ ۔(۱)
’’میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ جو شخص عاشورا کے دن کا روزہ رکھے گا، اللہ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کردے گا۔‘‘
اس بنا پر فقہا نے عاشوراء کے روزے کو مستحب قرار دیا ہے۔ جو شخص یہ روزہ رکھنا چاہے اسے چاہیے کہ محرم کی نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھ لے۔ اگر نہ رکھ سکے تو گیارہویں کو رکھ لے۔ بلکہ امام شافعی نے تینوں دن روزہ رکھنا مستحب قرار دیا ہے۔ (۲)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ روزہ صرف عاشورا کے دن بھی رکھا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ اس سے پہلے یا بعد کا دن بھی ملایا جاسکتا ہے۔ صرف عاشورا کا روزہ رکھا جائے، دوسرے دن روزہ نہ رکھا جائے تو بھی فدیہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
یہ تحقیق نہیں کی جاسکی کہ یہود کے یہاں مہینے کون کون سے ہیں ؟ اور ان کا Yom Kippurاور یوم عاشورا عہد نبوی میں اتفاقاً ایک ہی دن واقع ہوگئے تھے یا اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔