جواب
ہ حدیث مختلف کتبِ حدیث میں مروی ہے، مثلاً سنن نسائی (کتاب النکاح ، باب البکر یزوجھا أبوھا وھی کارھۃ،۳۲۶۹)میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے اورسنن ابن ماجہ (کتاب النکاح، باب من زوّج ابنتہ وھی کارھۃ ، ۱۸۷۴)میں حضرت بریدہؓ نے اس کی روایت کی ہے ۔ البتہ دونوں حدیثوں کی سندوں پر محدثین نے کلام کیا ہے اور انہیں ’ضعیف شاذ‘ قرار دیا ہے ۔ یہ حدیث مسند احمد (۲۵۰۴۳) میں بھی حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ واقعہ ثابت نہیں ہے ۔ یہ روایت بعض دیگر سندوں سے بھی مروی ہے ، جو صحیح ہیں ، مثلاً حضرت ابن عباسؓ سے مروی سندکو محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے سنن ابی داؤد۲۰۹۶،۲۰۹۷، سنن ابن ماجہ۱۸۷۵، مسند احمد۲۴۶۹، ۲۶۷۸۶، ۲۶۷۸۸۔
اس خاتون کا نام حضرت خنساء بنت خذام ؓ تھا۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلے اوس سےتھا۔ ان کاتذکرہ ابن عبدالبر کی الاستیعاب (۴؍۱۸۲۶) ابن حجر کی الاصابۃ (۷؍۶۱۱) اورتہذیب التہذیب (۴؍۶ ۷ ۱ ) ابن حبان کی الثقات (۳؍۱۱۶) اوردیگر کتبِ تراجم میں موجود ہے ۔ محدثین میں امام بخاری(۶۹۶۹)، ابودؤد، نسائی، ابن ماجہ اوردارمی وغیرہ نے اس حدیث کو روایت کرکے اس سے یہ استنباط کیاہے کہ لڑکی خواہ باکرہ (غیر شادی شدہ) ہویا ثیّبہ (شوہر دیدہ) اس کاباپ یا ولی اس کی مرضی کے بغیر کہیں اس کا نکاح نہیں کرسکتا۔ اس کی تفصیل کے لیے کتبِ فقہ سے رجوع کرنا چاہیے۔