ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ایک لڑکی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:’’ اے اللہ کے رسول! میرےباپ نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے طے کردیا ہے ، جب کہ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے ۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگرتم کویہ رشتہ منظور نہیں تو تمہارا نکاح نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ تب وہ لڑکی فوراً بول پڑی :’’ اے اللہ کے رسول !مجھے یہ رشتہ منظور ہے ۔ میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اسلام میں عورتوں کے کیا حقوق دیے گئے ہیں ؟‘‘ یہ حدیث کس کتاب میں مروی ہے ؟ اور سند کے اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے؟ براہِ کرم وضاحت فرمادیں ۔
جواب

ہ حدیث مختلف کتبِ حدیث میں مروی ہے، مثلاً سنن نسائی (کتاب النکاح ، باب البکر یزوجھا أبوھا وھی کارھۃ،۳۲۶۹)میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے اورسنن ابن ماجہ (کتاب النکاح، باب من زوّج ابنتہ وھی کارھۃ ، ۱۸۷۴)میں حضرت بریدہؓ نے اس کی روایت کی ہے ۔ البتہ دونوں حدیثوں کی سندوں پر محدثین نے کلام کیا ہے اور انہیں ’ضعیف شاذ‘ قرار دیا ہے ۔ یہ حدیث مسند احمد (۲۵۰۴۳) میں بھی حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ واقعہ ثابت نہیں ہے ۔ یہ روایت بعض دیگر سندوں سے بھی مروی ہے ، جو صحیح ہیں ، مثلاً حضرت ابن عباسؓ سے مروی سندکو محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے سنن ابی داؤد۲۰۹۶،۲۰۹۷، سنن ابن ماجہ۱۸۷۵، مسند احمد۲۴۶۹، ۲۶۷۸۶، ۲۶۷۸۸۔
اس خاتون کا نام حضرت خنساء بنت خذام ؓ تھا۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلے اوس سےتھا۔ ان کاتذکرہ ابن عبدالبر کی الاستیعاب (۴؍۱۸۲۶) ابن حجر کی الاصابۃ (۷؍۶۱۱) اورتہذیب التہذیب (۴؍۶ ۷ ۱ ) ابن حبان کی الثقات (۳؍۱۱۶) اوردیگر کتبِ تراجم میں موجود ہے ۔ محدثین میں امام بخاری(۶۹۶۹)، ابودؤد، نسائی، ابن ماجہ اوردارمی وغیرہ نے اس حدیث کو روایت کرکے اس سے یہ استنباط کیاہے کہ لڑکی خواہ باکرہ (غیر شادی شدہ) ہویا ثیّبہ (شوہر دیدہ) اس کاباپ یا ولی اس کی مرضی کے بغیر کہیں اس کا نکاح نہیں کرسکتا۔ اس کی تفصیل کے لیے کتبِ فقہ سے رجوع کرنا چاہیے۔