زکوٰۃ کے سلسلے میں چند سوالات ارسال ِ خدمت ہیں ، گزارش ہے کہ ان کے تشفی بخش جواب کی زحمت فرمائیں : (۱) کیا زکوٰۃ اپنے غریب قریبی رشتے داروں (سگے بھائی، چچا وغیرہ) کو دی جاسکتی ہے؟ (۲) کیا اپنی کل زکوٰۃ کسی ایک شخص کو دی جاسکتی ہے؟ (۳) ایک شخص خود غریب ہے، لیکن اس کی بیوی کے پاس اتنے زیور ہیں کہ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟ (۴) عورت سروس کرتی ہے، مال دار ہے، صاحب ِ نصاب ہے، لیکن اس کا شوہر غریب اور بے روزگار ہے۔ کیا عورت اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر کو دے سکتی ہے؟
جواب

اداے زکوٰۃ کی صحت کے لیے ایک بنیادی بات یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والے اور زکوٰۃ لینے والے کے درمیان ایسا رشتہ نہ ہو کہ وہ مملوکہ اشیاء سے استفادے میں شریک رہتے ہوں ، یا زکوٰۃ قبول کرنے والے زکوٰۃ ادا کرنے والے کے زیر کفالت ہوں یا ا ن کے درمیان ولادت کا رشتہ نہ ہو۔ اسی بنا پر ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی، بیٹوں ، پوتوں ، بیٹیوں نواسیوں کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ البتہ دیگر رشتے داروں کو مثلاً بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں وغیرہ کو، اگر وہ غریب اور مستحق ہوں ، زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ (۲)
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی اجنبی شخص کو زکوٰۃ دینے سے جتنا ثواب ملتا ہے، اس کا دو گنا ثواب رشتے داروں کو دینے سے ملتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّدَقَۃُ عَلَی الْمِسْکِیْنِ صَدَقَۃٌ وَ ھِیَ عَلٰی ذِی الرَّحِمِ ثِنْتَانِ صَدَقَۃٌ وَصِلَۃٌ ۔(۳)
’’مسکین کو صدقہ دینا باعث ِ اجر ہے اور رشتے دارکو دینے سے دوہرا اجر ملتا ہے۔ ایک صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔‘‘
(۲) قرآن کریم میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ اسے جملہ مصارف میں خرچ کیا جائے۔ بلکہ حسب ِ ضرورت اور حسب ِ موقع ان میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد مد ّات میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
اسی طرح زکوٰۃ متعدد افراد کو بھی دی جاسکتی ہے اور کسی ایک شخص کو بھی اس کا مالک بنایا جاسکتا ہے۔ بلکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو دو چار چار روپے تقسیم کرنے کی بجائے کسی ایک شخص کو زکوٰۃ کی اتنی رقم دے دی جائے کہ اس کی کوئی بنیادی ضرورت پوری ہوجائے۔
فقہاء نے لکھا ہے کہ کسی ایک شخص کو زکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ اتنی رقم دی جاسکتی ہے جو اس کے نصاب کو نہ پہنچے۔ لیکن موجودہ دور میں اس بات کی کوئی معنویت نہیں رہ گئی ہے۔ بعض امراض کے آپریشن میں ہزاروں نہیں ، لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ بعض دیگر ایسی ضرورتیں ہوسکتی ہیں جن میں نصاب ِ زکوٰۃ سے کم مقدار کی رقم کفایت نہیں کرسکتی۔ایسی صورت میں حسب ضرورت کسی ایک شخص کو مقدار ِ نصاب سے زیادہ زکوٰۃ بھی دی جاسکتی ہے۔(۱)
(۳) کوئی عورت اپنے زیورات کی وجہ سے صاحب ِ نصاب ہے، لیکن اس کا شوہر غریب اور ضرورت مند ہے تو ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے اور یہ شخص اس رقم کو اپنی گھریلو ضروریات میں خرچ کرے گا تو اس عورت کے اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عہد نبوی کے ایک واقعے سے ہمیں اس سلسلے میں رہ نمائی ملتی ہے۔
بریرہ نامی ایک باندی کا رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں میں آنا جانا تھا۔ لوگ اسے جو چیزیں بہ طور صدقہ دیتے تھے، وہ انھیں بھی ازدواج ِ مطہرات کے یہاں لے آتی تھی۔ انھیں ان چیزوں کے استعمال میں تردد ہوتا تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپؐ نے جواب دیا:
ھُوَ عَلَیْھَا صَدَقَۃٌ وَلَکُمْ ھَدِیَّۃٌ فَکُلُوْہُ ۔(۲)
’’وہ اس کے لیے صدقہ اور تمھارے لیے ہدیہ ہے، تم اسے کھاسکتی ہو۔‘‘
ایک مرتبہ آپؐ گھر میں داخل ہوئے۔ اس وقت ہانڈی میں گوشت پک رہا تھا۔ آپؐ کی خدمت میں کھانے کے لیے روٹی سالن پیش کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ہانڈی میں گوشت بھی تو ہے۔ آپؐ سے بتایا گیا کہ یہ گوشت بریرہ کو صدقے میں ملا تھا اور آپ چوں کہ صدقہ نہیں کھاتے، اسی لیے اس میں سے آپ کو نہیں دیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا:
عَلَیْھَا صَدَقَۃٌ وَلَنَا ھَدِیَّۃٌ ۔(۱)
’’یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ۔‘‘
(۴) اسلام کے نزدیک عورت کی قدر افزائی کا مظہر یہ ہے کہ اس نے اس کی ملکیت تسلیم کی ہے، جب کہ بیش تر مذاہب اور تہذیبوں میں وہ اس حق سے محروم رہی ہے اور مغربی ممالک میں بھی اسے یہ حق بیسویں صدی میں جاکر مل سکا ہے۔ عورت جو کچھ کمائے اسلام کی نظر میں وہ اس کی مالک ہے۔ شوہر کو حق نہیں کہ اس پر قبضہ جمالے اور اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرے۔
فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شوہر اپنی زکوٰۃ اپنی بیوی کو نہیں دے سکتا۔ اس لیے کہ وہ اس کے زیر کفالت ہوتی ہے۔ لیکن بیوی شوہر کو زکوٰۃ دے سکتی ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک نہیں دے سکتی، اس لیے کہ شوہر اس رقم کو گھریلو ضروریات میں خرچ کرے گا تو اس کا فائدہ عورت کو بھی پہنچے گا۔ دیگر فقہاء جن میں امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ (ایک قول کے مطابق) ابن المنذرؒ، امام ابو حنیفہ کے دونوں شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ اور اہل ظاہر قابل ذکر ہیں ، اس کے جواز کے قائل ہیں ۔ (۲)
ان حضرات کی دلیل حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی وہ مشہور روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی بیوی حضرت زینبؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرے پاس کچھ زیورات ہیں ، آپؐ نے صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ ان زیورات کو صدقہ کردوں ۔ گھر میں تذکرہ کیا تو میرے شوہر ابن مسعود کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے بچے اس کے زیادہ مستحق ہیں ۔ نبی ﷺ نے جواب دیا:
صَدَقَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ زَوْجُکَ وَ وَلَدُکَ اَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِہٖ عَلَیْھِمْ ۔(۱)
’’ابن مسعودؓ نے سچ کہا۔ تمھارا شوہر اور تمھارے بچے اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ تم ان پر صدقہ کرو۔‘‘
اس حدیث میں ’صدقہ‘ کا لفظ آیا ہے، جس کا اطلاق زکوٰۃاور نفلی صدقات دونوں پر ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ حدیث میں نفلی صدقہ مراد ہے۔ جب کہ دیگر فقہاء اسے زکوٰۃ کے معنی میں لیتے ہیں ۔
بہ ہر حال اصولی طور پر یہ بات طے ہے کہ زکوٰۃ کسی ایسے شخص کو دینی جائز نہیں ہے جس سے اس کا فائدہ خود زکوٰۃ دینے والے کو پہنچے۔