ہمارے ماما جان غلام رسول صوفی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ان کے اپنی کوئی اولاد نہیں ہے۔ انھوں نے کئی سال پہلے ایک بچی کو گود لیا تھا۔ اس کی پرورش کی اور جوان ہونے پر اس کی شادی اپنے بھانجے الطاف احمد سے کی۔ الطاف احمد کی بیوی طاہرہ کے ہاں دو لڑکے اقبال اور عامر پیدا ہوئے۔ طاہرہ شادی کے چند سال بعد فوت ہوگئی۔ چوں کہ غلام رسول اور ان کی بیوی عمر رسیدہ اور بیمار ہونے کی وجہ سے گھریلو کام کاج کرنے سے قاصر تھے، لہٰذا وہ دونوں میاں بیوی الطاف احمد کے یہاں رہنے لگے۔ تقریباً سات سال تک الطاف احمد کے گھر میں رہنے کے بعد غلام رسول کا انتقال ہوگیا۔ پس ماندگان میں ان کی بیوی سندری بیگم، اکلوتی بہن فاطمہ، جو کہ الطاف احمد کی ماں ہے اور ایک بھائی غلام محی الدین صوفی ہے۔ اس کے علاوہ غلام رسول کے دو مرحوم بھائیوں کی بھی اولادیں ہیں ، جو الگ سے اپنا گھر اور کاروبار چلاتے ہیں ۔ مرحوم غلام رسول نے اپنے پیچھے کچھ ملکیت چھوڑی ہے۔ از روئے شریعت یہ ملکیت کس طرح تقسیم ہوگی؟ اس سلسلے میں آپ کی رہ نمائی درکار ہے۔ امید ہے قرآن و سنت کے مطابق اس بارے میں رہ نمائی فرمائیں گے۔
جواب

آپ کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق میت (غلام رسول صوفی) کے درج ذیل پس ماندگان ہیں :
(۱) بیوی (سندری بیگم) جو لاولد ہیں ۔ (۲) بہن (فاطمہ۔ الطاف احمد کی ماں )
(۳) بھائی (غلام محی الدین صوفی) (۴) بھتیجے (تعداد مذکور نہیں )
شریعت کی رو سے:
ـــاولاد نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو میراث کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ (النساء: ۱۲)
ـــبقیہ میراث بھائی بہن کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگی کہ بہن کو ایک حصہ ملے گا اور بھائی کو دو حصہ۔ (النساء: ۱۷۶)
ـــبھائی بہن کی موجودگی میں بھتیجوں کو کچھ نہ ملے گا۔
خلاصہ یہ کہ پورے موروثہ مال کے چار حصے کیے جائیں ۔ چوتھائی چوتھائی حصہ بیوی اور بہن کو دیا جائے اور نصف بھائی کو۔