فوج کی اخلاقی تربیت اور لونڈی سے تمتع کا معاملہ

آج کل جنگ میں جہاں سپاہیوں کو وطن سے ہزاروں میل دور جانا پڑتا ہے اور ان کی واپسی کم ازکم دو سال سے پہلے ناممکن ہوجاتی ہے، سوشل قباحتیں مثلاً زنا وغیرہ کا پھیل جانا لازمی ہے، کیوں کہ جنگ کے جذبے کی بے داری کے ساتھ تمام جذباتِ سفلی بھی بھڑک اُٹھتے ہیں ۔اس چیز کو روکنے کے لیے یا قابو میں لانے کے لیے فوجیوں کے لیے رجسٹر ڈ رنڈیاں بہم پہنچانے کی اسکیم پر عمل ہورہا ہے اور ان کے دلوں کو خوش رکھنے کے لیے(WACI)({ FR 2178 }) دفتروں میں ملازم رکھی جارہی ہیں ۔یہ دونوں صورتیں قابل نفرین ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی تردید کے بعد اسلام اس عقدے کے حل کا کیا طریق بناتا ہے؟ کنیزوں کا سسٹم کس حد تک اس قباحت کا ازالہ کرسکتا ہے اور کیا وہ بھی ایک طرح کی جائز قحبہ گری(prostitution) نہیں ہے؟

مجھے آپ کی تحریک سے ذاتی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔میری ایک بہن آپ کی جماعت میں شامل ہوگئی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی بدل گئی ہے۔ہر وقت نماز،تسبیح، وعظ اور نصیحت سے کام ہے۔ گھر کے افراد کو زبردستی آپ کا ترجمۂ قرآن سناتی ہے۔اگرچہ تعلیم یافتہ ہے لیکن خیالات کے اعتبار سے وہ موجودہ زمانے کی لڑکی نہیں رہی۔ لباس سادہ اور سفید پہنتی ہے۔جس دن دل چاہے روزہ رکھ لیتی ہے۔میں اس کے اس طرز سے نہایت پریشان ہوں ۔ رشتہ داروں میں جو سنتا ہے وہ اس لیے رشتے پر آمادہ نہیں ہوتا کہ رات دن وعظ کون سنے۔ پرسوں میری خالہ آئی تھیں ،ان کوبھی یہ نصیحت کرنے لگیں ۔چند کتابیں اور ایک کیلنڈر آپ کے ہاں کا انھیں دے ہی دیا۔کل اتوار تھا،ہم لوگ سیرکے لیے گئے،اس سے بہت کہا، مگر یہ نہیں گئی۔ بالکل ولیوں کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے اس ماحول میں آخر کس طرح گنجائش پیداکی جائے۔نہ تو اس کی شادی اس طرح ہوسکتی ہے اور نہ اس کے خیالات بدلنا میرے یا کسی کے بس میں ہے۔ اگر اس سے کچھ کہا جائے تو رنجیدہ ہوجاتی ہے۔بتایئے میں کیا کروں ؟

پرہیز گاروں کے ساتھ جاہل معاشرے کا رویہ

ہماری بستی میں ایک صاحب ہیں جو نماز، روزہ، زکاۃ اور دوسرے احکا م اسلامی کے پابند ہیں ،گناہ کبیرہ سے پرہیز کرنے والے ہیں ،مگر ان کا کچھ عجیب حال ہے۔ مثلاً وہ والدین کی خدمت تو سرانجام دیتے ہیں اور ان کے کام میں بھی مدد کرتے ہیں ،مگر ان کی املاک سے کچھ نہیں لیتے، حتیٰ کہ ان کا کھانا تک نہیں کھاتے، محض اس بِنا پر کہ ان کے والد کاروبار کے لیے جھوٹ بولتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے تمام عزیز ورشتہ دار جن کی کمائیوں میں انھیں حرام آمدنی کے شامل ہونے کا شبہہ ہوتا ہے، ان کے ہاں بھی کھانے پینے سے وہ پرہیز کرتے ہیں ۔ رشوت خوروں ، سرکاری ملازموں ،سودی لین دین کرنے والوں اور فرائض منصبی کی انجام دہی میں بددیانتی کرنے والوں سے بھی ان کا یہی معاملہ ہے۔ حد یہ کہ ایک امام مسجد ہیں جن کو ناجائز کمائی کرنے والے بعض اصحاب وظیفہ دیتے ہیں ۔ یہ صاحب ان کے ہاں بھی کھانے یا چائے وغیرہ میں شریک نہیں ہوتے۔ اگر کبھی سفر میں مجبوراً کسی ایسے شخص کے ہاں کھانا کھالینے کی نوبت آئے تو یہ کھانے کی قیمت کا اندازہ کرکے اس سے زیادہ قیمت کا کوئی ہدیہ وہاں روانہ کردیں گے اور اگر کسی ناجائز کمائی کرنے والے کے ہاں مجبوراًکچھ کھا پی لیں گے تو اندازاً اس کا معاوضہ خیراتی فنڈ میں جمع کرکے یہ دُعا کریں گے کہ یا اﷲ اس کا ثواب فلاں کو پہنچے،جس کے ہاں سے میں نے کھایا پیا ہے۔ اس سارے معاملے کی اُس دوسرے شخص کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔
خود ان مسلم متقی صاحب کی آمدنی ایک قطعی جائزتجارت سے ہوتی ہے جس میں یہ کوئی جھوٹ نہیں بولتے۔اس کمائی سے اعزہ اور احباب کو کھانے اور چائے کی دعوت اکثر دیتے رہتے ہیں ۔ اب ان کی اس پرہیز گاری سے ان کے والدین اور دوسرے اعزہ سخت نالاں ہیں ۔ پڑوسیوں میں بھی ایک ہل چل مچ گئی ہے اور بستی میں ان کے خلاف ناراضی پیدا ہورہی ہے۔ مہربانی کرکے ہمیں یہ بتائیے کہ یہ متقی صاحب صحیح راستے پر ہیں یا نہیں ؟اِن کی روش قرآن وحدیث کی حدود کے اندر ہے یا متجاوز؟ اور ان کا یہ تقویٰ ٹھوس اصولی ہے یا فروعی یا مستحب؟کہیں ایسا تو نہیں کہ انھیں ان کے نفس نے فریب دیا ہو؟

فحاشی کی کثرت میں پاک دامن رہنے کا طریقہ

’’پردہ‘‘پڑھنے سے کافی تشفی ہوئی۔ لیکن اکثر مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں اُلجھائو رفع نہیں ہوتا۔
ایک ایسا شخص جسے اس کے موجودہ حالات اور معاشی وسائل نکاح کرنے کی اجازت نہ دیں وہ آج کل کے زمانے میں کیوں کر اپنی زندگی پاک بازی سے بسر کرے؟ میں نے اس کا جواب جس کسی سے بات کی،نفی میں پایا۔ ایک طرف موجودہ ماحول کی زہرناکیاں اور دوسری طرف چشم وگوش کی بھی حفاظت کا مطالبہ، ناممکن العمل معلوم ہوتا ہے۔ کہاں آنکھیں میچیے اور کہاں کانوں میں انگلیاں دیجیے؟ اور پھر یہ کہ برے خیالات کی آمد کو کیوں کر روکیے؟ اوّل تو ہم اپنے خیالات کی آمد ورفت پر کوئی اختیار نہیں رکھتے اور اگر اس کی کوشش بھی کی جائے تو ایک ذہنی خلفشار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا جو اور خراب کُن ہے۔سیلف کنٹرول(self control) جن سازگار حالات میں قابل عمل ہو صرف انھی حالات میں کارگر اور مفید ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں جہاں ہر طرف برانگیختگی کے فوج در فوج سامان ہوں ،اپنے آپ سے لڑنا اپنی شخصیت کے لیے ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ایک صاحب جو میڈیکل سائنس میں اس سال ڈاکٹریٹ کی سند لے رہے ہیں ، کہتے ہیں کہ اس صورت میں نکاح جو حاصل نہیں ہے،اس کے علاوہ نیچرل طریق پر تسکین خاطر حاصل کرنا ہی صرف اس ذہنی انتشار اور تذلیل نفس سے نجات دے سکتا ہے۔ نفسیات کے ماہرین بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔
کیا آپ بتائیں گے کہ بحالت مجبوری مذکورہ بالا راے پر عمل پیرا ہوجانا کس حد تک گناہ ہے، اور اگر یہ سراسرگناہ ہے تو پھر ان حالات میں صحیح راستہ کیا ہوگا جو معقول اور قابل عمل ہو؟ اُمید ہے کہ آپ ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے نفسیات انسانی کے حقائق کی پوری رعایت فرمائیں گے۔

اسلامی گھریلوزندگی کی بنیادی خصوصیات

نمونے کی اسلامی گھریلوزندگی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں ؟ کیا موجودہ گھریلو زندگی اسلامی ہے؟ کیا شہر اور گائوں میں ایک طرز کی گھریلو زندگی ہوگی؟ موجودہ گھریلو زندگی میں پرانی ہندستانی روایات کا کتنا دخل ہے؟

اسلامی ریاست میں شاتم رسو ل ذمّی کی حیثیت

راقم الحروف نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف الجہاد فی الاسلام کا مطالعہ کیا۔ اسلام کا قانون صلح وجنگ کے باب میں صفحہ۲۴۰ ضمن(۶) میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا۔ ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جاملے۔ دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کرکے فتنہ وفساد برپا کرے۔‘‘
فدوی کو اس امر سے اختلاف ہے او رمیں اسے قرآن وسنت کے مطابق نہیں سمجھتا۔ میری تحقیق یہ ہے کہ نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنا اور دوسرے امور جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے،ان سے ذِمّی کا عقد ذمہ ٹو ٹ جاتا ہے۔آپ نے اپنی راے کی تائید میں فتح القدیر جلد ۴ اور بدائع صفحہ ۱۱۳کا حوالہ دیا ہے۔لیکن دوسری طرف علامہ ابن تیمیہؒ نے الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول کے نام سے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ زاد المعاد،تاریخ الخلفاء، عون المعبود، نیل الاوطار جیسی کتابوں میں علماے سلف کے دلائل آپ کی راے کے خلاف ہیں ۔یہاں ایک حدیث کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں : أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا ({ FR 2054 }) ’’حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبیؐ کے خلاف بدزبانی کرتی تھی اور آپؐ پر باتیں چھانٹتی رہتی تھی۔ ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ نبیؐنے اس کے خون کو راے گاں قرار دے دیا ۔‘‘
ضمناً یہ بھی بیان کردوں کہ یہاں کے ایک مقامی اہل حدیث عالم نے آپ کی اس راے کے خلاف ایک مضمون بعنوان’’ مولانا مودودی کی ایک غلطی‘‘ شائع کیا ہے اور اس میں متعدد احادیث اور علما کے فتاویٰ درج کیے ہیں ۔

تفہیمات کا مضمون( قطع ید اور دوسرے شرعی حدود)({ FR 1936 })ایک عرصے سے عنوان بحث بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں جناب مفتی صاحب سے رجوع کیا گیا۔ انھوں نے مضمون متذکرہ کو غور سے مطالعہ کرنے کے بعد حکم دیا ہے کہ مندرجہ ذیل استفسار آں جناب سے کیا جائے:
۱۔اسلام کے قانون واصول قطعی طورپر ناقابل تجزیہ ہیں ؟یا کچھ گنجائش ہے؟ مثلا ً:اگر حکومت اجراے حدود کا قانون پاس کردے اور جج حضرات ان قوانین کے عملی نفاذ کے مجاز ہوجائیں لیکن معاشرے کی حالت یہی رہے جو اب ہے اور اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی قانون نافذہی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں شرعی ثبوت کے بعد رجم اور جَلد کی سزا ظلم ہوگی یا نہیں ؟
۲۔ آپ نے تفہیما ت میں لکھا ہے کہ نکاح، طلاق اور حجاب شرعی کے اسلامی قوانین اور اخلا ق صنفی کے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ان حدود کا گہرا ربط ہے جسے منفک نہیں کیا جاسکتا۔حالاں کہ مندرجہ بالا صورت میں یہ ربط ٹوٹ جائے گا۔جو لوگ اس فعل کے ذمہ دارہوں گے (پارلیمنٹ یا حکومت) یقیناً ان کا یہ فعل نامناسب ہوگا۔ مگر کیا ان قوانین کی رو سے عدالت جو حکم اور حد جاری کرے گی کیا یہ حکم اور حد جاری کرنا ظلم ہوگا؟
۳۔ کیا حکومت کو اصلاح معاشرہ کے لیے اجراے حدود کو کچھ مدت کے لیے ملتوی رکھنا چاہیے اور احکام اسلامی کے اجرا میں کسی خاص ترتیب کو ملحوظ رکھنا چاہیے؟