دوسرے فقہی مذاہب پر عمل کا حکم

ہمارے اس زمانے میں مذاہب ِ اربعہ میں سے کسی ایک کی پابندی پہلے سے زیادہ لازمی ہوگئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی صاحب علم وفضل چار معروف مذاہب فقہ کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنے یا اجتہاد کرنے کا حق دار ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کس دلیل سے؟اور اگر جائز ہے تو پھر طحطاوی میں ایک بڑے صاحب کما ل فقیہ کے اس قول کا کیا مطلب ہے:
اَلْمُنْتَقِلُ مِنْ مَذْھَبٍ إِلٰی مَذْھَبٍ بِإِ جْتِھَادٍ وَبُرْھَانٍ اٰثِمٌ یَسْتَوْجِبُ التَّعزِیْرَ۔ ({ FR 2049 })

اجتہاد کے حدود اور وضو کرنے کی حکمت

میرے ایک جرمن نومسلم دوست ہیں جن سے میرا رابطہِ مراسلت قائم ہے۔وہ مجھ سے اپنے بعض علمی وعملی اشکالات بیان کرتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ حال ہی میں ان کا ایک خط آیا ہے جس میں انھوں نے دریافت کیا ہے کہ فقہی احکام میں ’’اجتہاد‘‘ کے اصول کے تحت کہاں تک تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اسلام کے بہت سے تفصیلی احکام فقہا کے اخذ کردہ اور مرتب کردہ ہیں اور نبیﷺ کی وفات کے بعد بعض خاص جغرافیائی اور تمدنی حالات کی پیداوار ہیں ۔ کئی صدیوں تک تو اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا گیا تھا مگر اس کے بعد اصولاً ضرورت اجتہاد کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاًاسے بند کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں بالخصوص یورپ کے مسلمانوں کو بعض احکام کی تعمیل میں دشواری پیش آتی ہے ۔مثال کے طور پر وہ وضو کے مسئلے کو لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وضو میں ہر مرتبہ پائوں دھونا اہل یورپ کو مشکل اور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ وہاں لوگ ہمیشہ جراب اور بند جوتے استعمال کرتے ہیں ،اس لیے پائوں کے گرد آلود یا ناپاک ہونے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ سردیوں میں پائوں دھونا آسان بھی نہیں ہوتا۔یہی معاملہ منہ دھونے کا ہے۔یورپ کے شہروں میں بالعموم مٹی نہیں اُڑتی اورپسینہ بھی براے نام آتا ہے اس لیے ان کے نزدیک منہ اور پائوں کا دن میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہونا چاہیے۔
آپ براہِ کرم میرے دوست کے خیالات پر صحیح اسلامی نقطۂ نظر سے تنقید کریں اور اس کا جو پہلو اصلاح طلب ہو، واضح فرمائیں ، تاکہ میں انھیں اطمینان بخش جواب دے سکوں ۔

قرآن بطورِ ’’کوڈ‘‘

دریافت طلب امر یہ ہے کہ قرآن آیا ایک کوڈ ہے یا نہیں ؟ بظاہر قانونی اعتبار سے قرآن ایک ترمیمی ضابطہ (amending code)کی حیثیت رکھتا ہے جس نے بہت سے ان رواجوں اور دستوروں کو قائم رکھا جو عرب میں جاری تھے،سب میں انقلاب پیدا نہیں کیا۔لہٰذا یہ کہنا کہ قرآن ایک مکمل کوڈ ہے،کس حد تک درست یا غلط ہے؟

معاشرتی ضروریات کے مطابق نصوص کی نئی تعبیر

کیاقرآن وحدیث کے الفاظ کو تبدیل کیے بغیر سوسائٹی اور معاشرت کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ان دو ماخذ کے الفاظ کی تعبیر میں تبدیلی، اضافہ یا کمی کی جاسکتی ہے؟مثلاً جیسا کہ مؤلفۃ القلوب کی مثال سے ثابت ہوتا ہے۔ اس قسم کے مسائل آج بھی پیدا ہوسکتے ہیں ،اگرچہ ان کی تعداد کم ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں ان احکام ومسائل میں جو نصوص قرآنی یا احادیث لازمی پر مبنی ہیں ،زمانے کی ضروریات اور ان احکام کی علت بدل جانے پر ایسے نئے احکام مستنبط کیے جاسکتے ہیں جو اسلام کی روح کے مطابق ہوں ۔آخر فقہا ہی کا یہ متفق علیہ مسلک ہے کہ ہر حکم کی ایک علت ہے اور فلاح عامہ بہرحال مقدم ہے۔
مثلاً زکاۃ کا حکم قرآن شریف میں مذکور ہے لیکن زکاۃ کی کوئی شرح مذکور نہیں ۔ احادیث میں جو شرح مذکور ہے وہ زمانے کی ضروریات کے مطابق تھی۔ اب ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا زکاۃ کو ملک کے عام ریونیو یا ٹیکس کی حیثیت حاصل ہے(جب کہ حکومت اسلامی ہو؟) اگر ہے تو دوسرا سوال شرح کا ہے کہ آج کے مالیاتی تقاضے قدیم شرح سے پورے نہیں ہوسکتے۔

بزرگانِ سلف کے اجتہادات

کیا بزرگان سلف اور ائمہ نے جو اجتہادات کیے،اگر ان مسائل میں کوئی تبدیلی واضافہ ممکن نہیں تو ان کو اختیار کرلیا جائے، ورنہ زمانہ کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ان کا اجتہاد کچھ مسائل میں اگر سازگار نہ رہا ہو تو آج کے فقہا ازسر نو اجتہاد کریں جو دورحاضر کی ضروریات کے مطابق ہو؟

مآخذ قانون کی تفصیل

متذکرہ بالا چار مآخذ کے علاوہ اور کون سی چیزیں ماخذ قانون ہیں ؟ کیا علّت، دوسرے ممالک کے رواج، عرف، عادت، تعامل، سنن القبل] شرع ما قبلنا[، عموم بلویٰ، صاحب امر کی ہدایات، معاہدات وغیرہ کو مآخذ قانون بنایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ فقہا نے ان تمام کو مآخذ قانون کی فہرست میں تو نہیں لکھا لیکن دوران بحث میں ان تمام کاتذکرہ مآخذ قانون کی حیثیت سے کیا ہے، اور خلفاے راشدین کے عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاًحضرت عمرؓ نے زراعت ومالیاتی قانون میں شامی،مصری اور ایرانی قانون کی پیروی کی،رجسٹر اور حسابات رکھنے کے طریقے ان سے اخذ کیے، غیر اسلامی حکومتوں کے تاجروں پر اتنا محصول عائد کیا جتنا کہ ان کی حکومتیں مسلمان تاجروں پر عائد کیا کرتی تھیں … تو کیا اس سے یہ اُصول مستنبط نہیں ہوتا کہ قرآن وحدیث کی مقرر کردہ حدود کے اندر دوسرے ممالک کے قانون سے استفادہ،اور نہ صرف استفادہ بلکہ اس کو بعینہٖ اخذ کیا جاسکتا ہے؟حضرت عمرؓ کا عمل تو کم ازکم یہی ثابت کرتا ہے۔ آج اگر اسلامی حکومت وجود میں آئے تو کیا وہ مغربی ممالک کی سیاسی،معاشرتی،ادبی، اقتصادی اور سائنٹی فِک ترقیات کو نظر انداز کرکے نئے سرے سے اپنی عمارت کی بنیاد نہ رکھے گی،محض اس غلط تصور اور تعصب کی بنا پر کہ جو کچھ مغرب سے آیا ہے،وہ غلط ہے؟کیایہ تصور بالکل اسی طرح غلط نہیں کہ جو کچھ مغرب سے آیا ہے، وہی صحیح ہے؟اگر یہ ایک انتہا ہے تو وہ دوسری انتہا ہے۔پھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ مغرب کی جو باتیں شریعت کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہیں ،ان کو بعینہٖ یا ان میں ادل بدل کرکے لے لیا جائے۔

اجماع ِ صحابہ

آپ حضرات کے خیال میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع شرعی طور پر حجت ہے یا نہیں ؟({ FR 1930 })

اجماع کاحجت ہونا

ایسا اجماع جو کسی صحیح حدیث پرمؤسس ہو،واقعی شرعی حجت ہے اور ایسے اجماع کا منکر یقیناً کافر ہے۔ لیکن ایسا اجماع جو علما نے کسی ایسے مقصد پر کرلیا ہو جو مخبرِ صادق ؐ کے لفظوں سے صراحتاً ثابت نہ ہو یا کسی ایسی حقیقت سے تعلق رکھتا ہو جس کی تصریح شارع علیہ السلام (کذا) نے نہ کی ہو اور اسے مصلحتاً مجمل ہی رہنے دیا ہو،کیا یہ بھی شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا منکر کافر ہے؟

ایک مسلمان کے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے نفس تقلید فرض ہے یا نہیں ؟ اور تقلید شخصی کا درجہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟ اور آپ کے نزدیک تقلیدِ شخصی کو واجب کہنے والے لائق تحسین ہیں یا قابل ملامت؟

تقلیدِ ائمہ اربعہ کو گروہِ’’ اہل حدیث‘‘ حرام وشرک بتاتا ہے ۔کیا یہ صحیح ہے؟کیا مقلدین اہل حدیث نہیں ہیں ؟تقلید اصل میں کیا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے؟