وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا …کی تشریح

قرآنِ مجید کی اس آیت کی تشریح کیا ہوگی؟ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا({ FR 2275 }) ( الشمس :۷-۸ ) یہ محض ایک حیاتیاتی (بیولاجیکل) محرک ہے یا اس سے زائد کوئی شے ہے۔ آیات کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَنْ کوئی دوسرا وجود ہے جو نفس کو اپنے تحت رکھتا ہے اور اُس پر اثرانداز ہوتا ہے۔ تقویٰ اور فجور کے الہام کیے جانے سے کیا مراد ہے؟

نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی تعریفیں

نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی نفسیاتی تعریف کیا ہوسکتی ہے؟ ان اصطلاحات پر پوری راہ نمائی درکار ہے تاکہ ہمیں سوچنے کا مواد فراہم ہوسکے اور وہ اسلام کا ایک فلسفیانہ اور نفسیاتی مدرسۂ فکر بنانے میں مفید ثابت ہو۔

نفس کی تعریف

مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے اور آپ سے زبانی گفتگو کرنے سے بے حد فائدہ ہوا ہے اور ہمیشہ آپ کے حق میں دعاے خیر کرتا رہتا ہوں ۔ میں آج کل امریکا میں بالخصوص نفسیاتی علوم اور ذہنی عوارض کے فنِ علاج کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔ اور آپ کی اسلامی بصیرت سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں ۔راہ نمائی کیجیے کہ اسلام میں ’’نفس‘‘ کی کیا تعریف ہے؟

انسان کے اندر مادۂ تخلیق کا ماخذ

میں ایک ڈاکٹر ہوں ۔ ماہ ستمبر کے ترجمان القرآن میں آپ نے سورئہ ’’الطارق‘‘ کی آیات ۵ تا۷ کا جو ترجمہ کیا ہے اور پھر اس کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اسے میں سمجھ نہیں سکا۔ ترجمہ یہ ہے:
’’پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘
اس کے حاشیے میں آپ کی تشریح میں نے بغور کافی دفعہ پڑھی ہے لیکن میں سمجھ نہ سکا۔ جہاں تک عملی مشاہدے کا تعلق ہے تو یہ مادہ فوطے (testicle) میں پیدا ہوتا ہے اور باریک باریک نالیوں کے ذریعے بڑی نالیوں میں گزرتا ہوا پیٹ کی دیوار میں کولہے کی ہڈی کے عین متوازی ایک نالیinguinal canalمیں سے گزر کر قریب ہی ایک غدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ غدود کا نام prostate ہے اور پھر وہاں سے رطوبت لے کر اس کا اخراج ہوتا ہے۔ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان سے اس کے گزرنے کو میں سمجھ نہ سکا۔ البتہ اس کا کنٹرول ایک ایسے نروس سسٹم سے ہوتا ہے جو کہ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان جال کی صورت میں پھیلا ہوا ہے۔ وہ بھی ایک خاص حد تک۔ اس کا کنٹرول ایک اور غدود جوکہ دماغ میں ہوتا ہے، اس کی رطوبت سے ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہاں اخراج کا ہے (جو کہ ایک نالی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے)۔ میری درخواست ہے کہ آپ مجھے مفصل لکھیں کہ اس کی تفسیر کیا ہے۔ میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے (جس کے لیے معذرت خواہ ہوں ) کہ آپ سائنٹی فِک علم پر یقین رکھتے ہیں ۔

دین و شریعت کی تشریح

تفہیم القرآن جلد چہارم سورۃ الشوریٰ کے حاشیہ۲۰ صفحہ ۴۸۸-۴۸۹ پر آپ نے تحریر فرمایا ہے:
’’بعض لوگوں نے…یہ راے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں ، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کو ماننا اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں ۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی راے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ ایسی خطرناک راے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح؈ کی امت کو خراب کر دیا۔‘‘
بعدازاں قرآن کی آیات کے حوالے سے آپ نے ثابت فرمایا ہے کہ دین سے مراد صرف ایمانیات ہی نہیں بلکہ شرعی احکام بھی اس میں شامل ہیں اور امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ رسالہ دینیات کے باب ششم میں دین اور شریعت کا فرق جو آپ نے بیان فرمایا ہے میری ناقص راے میں اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

سورة الشوریٰ ،آیت ۲۳کی تشریح

تفہیم القرآن ،سورئہ الشوریٰ آیت ۲۳ ح۴۱ صفحہ ۵۰۱ آپ نے اپنی راے محفوظ رکھی ہے۔ ’’قربیٰ‘‘ کے سلسلے میں واضح فیصلہ ضروری تھا۔ ایک طبقے کی تفریق کی اصل بنیاد یہی ہے۔

سُوْرَۃُ الزُّخْرُف آیات ۸۵ تا۸۹ وَقِیْلِہٖ کا عطف

سورۃ الزُّخرُف ہی میں وَقِیْلِہٖ کا عطف شَھِدَ بِالْحَقِّ پر ہے۔ آیات کا مفہوم یہ ہے:
اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنھیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، اِلّایہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔ ان سے پوچھ دیکھو کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو یہ خود کہیں گے: اللّٰہ نے، پھر کہاں سے الٹ جاتے ہیں ؟ ہاں ، جو شہادت دے اپنے اس قول سے کہ اے رب، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔ اچھا، اے نبیؐ ان سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمھیں ، عن قریب یہ جان لیں گے۔

سورۃ الزخرف، آیت ۶۱ وَاتَّبِعُوْنِ کا قائل

’’سورۃ الزخرف آیت۶۱ کسی طرح بھی اللّٰہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے، اس لیے کہ اتّباع کا لفظ انبیا؊ کی پیروی ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آیت کا صحیح ترجمہ ہوگا :’’اے نبی ان سے کہو وہ (حضرت عیسیٰؑ) تو قیامت کی نشانی ہے، پس اس میں شک نہ کرو اور میری اتباع کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔‘‘

مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہٖ سٰمِراً تَہْجُرُوْنَ کا ترجمہ

استکبار کے بعد ’’ب‘‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ لفظ یہاں استہزا کے مفہوم پر متضمن ہے۔ عربی میں جب ’’صلہ‘‘ لفظ کے ساتھ مناسبت نہ رکھتا ہو تو مناسب لفظ محذوف ہوتا ہے، جیسے فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ صَبَرَ یَصْبِرُ کے ساتھ ’’ل‘‘ کا صلہ مناسبت نہیں رکھتا، اس لیے پورا جملہ ہوگا فَاصْبِرْ وَانْتَظِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ، خَلَا کے ساتھ الٰی مناسبت نہیں رکھتا، اس لیے تقدیرِ جملہ ہوگی: اِذَا خَلَوا وَذَھَبُوْا اِلٰی شَیاطِیْنِھِمْ۔ لفظ سٰمِراً، تَھْجُرُوْنَ کا مفعول بھی ہوسکتا ہے اور اگر اس کو بِہٖ کی ضمیر مجرور کا حال مانیں جب بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔
تَھْجُرُوْنَ (تم چھوڑتے ہو) اپنے معروف معنی میں استعمال ہوا ہے۔
’’گھمنڈ کرتے ہوئے گویا کسی افسانہ گو کو چھوڑ رہے ہو۔‘‘