قرآنی احکام کے جزئیات میں رد ّو بدل
میں ایک جواں سال طالب علم ہوں ۔۱۹۷۰ء سے جماعت اسلامی کا ذہنی ہم درد اور آپ کا ایک عقیدت مند۔ لیکن آپ کے ساتھ عقیدت ہو یا کسی کے ساتھ دشمنی، میرے پیش نظر ہمیشہ خاتم النبیین (ﷺ) کی یہ حدیث شریف رہتی ہے کہ محبت اور نفرت کا معیار صرف قرآن پاک اور سنت صادقہ پر رکھو۔ میں نے آپ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ میں خداے واحد کی بارگاہ میں بھی یہ عرض کرسکتا ہوں کہ انھوں نے مجھے اسلام کے سمجھنے، شعوری طور پر اس پر عمل کرنے اور اسلام کی خدمت کرنے اور اقامت دین کے مقدس فریضے کو انجام دینے کا جذبہ پیدا کیا۔ ان تمہیدی کلمات کے بعد میں اس مسئلے کی طرف آتا ہوں جس نے مجھے اُلجھن میں ڈال دیا ہے۔ یہ چیز واقعتاً میرے دل میں کھٹکتی ہے۔ یہ آپ کی وہ تحریر ہے جو آپ کی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں مندرج ہے۔ میرے پاس اس کتاب کا مارچ ۱۹۷۰ء کا اڈیشن ہے۔ ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ ’’رسول اللّٰہ نے دین کے احکام کی بجا آوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں ، کیا کسی زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے ان کی جزئیات میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے؟ کیا اسی قسم کا ردّ و بدل قرآن کی جزئیات میں بھی کیا جا سکتا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ان میں اسی حد تک رد و بدل ہوسکتا ہے جب اور جس حد تک حکم کے الفاظ اجازت دیتے ہوں ۔ اس چیز میں آپ نے قرآن پاک کو بھی شامل کر دیا ہے۔ آپ اپنی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے صفحہ ۱۲۷ پر دیے گئے سوال اور جواب کو دوبارہ پڑھیں ۔ میرے خیال میں یہ چیز قرآن پاک کی مستند حیثیت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ میرے خیال ناقص کے مطابق ہی نہیں ، فرمانِ الٰہی کے مطابق بھی کلام پاک ایک محفوظ کتاب ہے جس کے ایک شوشے میں بھی ردّ و بدل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاملہ اور فیصلہ سنت ثابتہ پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ حکم کے مطابق ردّ و بدل کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
(۱) اس تحریر میں ’’قرآنی احکام کے جزئیات‘‘ سے آپ کی مراد کیا ہے؟
(۲) اگر اس سے مراد کوئی آیت پاک ہے تو کیا کوئی غیر صاحبِ وحی اس میں ردّ و بدل کا مختار ہے؟
(۳) رسولِ اکرمؐ کے تشریف لے جانے کے بعد کیا قرآن پاک کے احکام میں رد و بدل ہوسکتا ہے؟
(۴)اور کیا خود رسول اکرمﷺ قرآنی احکام کی جزئیات میں اپنی مرضی سے رد و بدل کرسکتے تھے؟
(۵)ختم نبوت کے خلاف کیا یہ تحریر ایک ثبوت اور دلیل کا باعث نہیں بنتی ہے؟
(۶) آپ نے جو بات لکھی ہے کیا آپ اس کے سلسلے میں قرآن پاک، سنتِ رسول یا مسلک ائمہِ اربعہ سے ثبوت دے سکتے ہیں ؟
(۷) اگر کوئی دلیل اس سلسلے میں آپ کے پاس نہیں تو کیا آپ اپنی راے سے رجوع کرنے کے لیے تیار ہیں ؟
مولانا صاحب، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو بات کا بتنگڑ بنا کر اس کی تشہیر کرتے اور اسے کسی شخص کے خلاف نفرت و حقارت کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے حق سمجھ کر لکھا ہے۔ میرا مطالعہ صرف آپ کی کتب تک محدود نہیں بلکہ اس مختصر عمر میں میں نے اسلاف کی مقدس تحریروں کا بھی مطالعہ کیا ہے اور یہ کتب مطالعہ کرنے اور جذبہ اسلام پیدا کرنے میں آپ کی کتب کا پورا اور ۱۰۰ فی صد حصہ ہے، جس کے لیے میں اللّٰہ تعالیٰ سے آپ کے لیے جزاے خیر کا طالب ہوں ۔