قلب کا درست مفہوم

اسی طرح ایک اور الجھن بھی ہے، امید ہے کہ آپ اسے بھی حل فرما دیں گے۔ کیا دل اور عقل ایک ہی چیز ہیں یا ان دونوں کے وجود الگ الگ ہیں ؟

حق کے معانی اور استعمالات

قرآن کریم میں ’’حق ‘‘کی اصطلاح کن کن معنی میں استعمال ہوئی ہے؟اور وہ معنی ان مختلف آیات پر کس طرح چسپاں کیے جاسکتے ہیں جو تخلیق کائنات بالحق، کتاب بالحق، رسالت بالحق اورلِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ({ FR 2257 }) (الانفال:۸) کے تحت حق کی ہم آہنگی، تسلسل اور ارتقا پر روشنی ڈالتے ہیں ؟

معجزہ بطور دلیلِ نبوت

سورۂ العنکبوت میں آیت ۵۰ کے معنی میری سمجھ میں نہیں آئے۔میرے پاس جو قرآن پاک کی تفسیر ہے ،اس میں بھی ان کی وضاحت نہیں ملی۔لہٰذا آپ کی دینی بصیرت سے اُمید قوی ہے کہ آپ ان کی تفصیل سے آگاہ فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں گے۔
سورۂ العنکبوت آیت ۵۰ میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے:
وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ
’’اور کہتے ہیں ( منکر) کہ کیوں نہ اتریں اس پر کوئی نشانیاں اس کے ربّ سے۔ (آپ) کہہ دیجیے کہ نشانیاں تو ہیں اختیارمیں اﷲ کے اور میں تو یہی سنا دینے والا ہوں کھول کر۔‘‘
مندرجہ بالا آیت قرآنی سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کو معجزات اﷲ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائے۔ معجزات حضورﷺ کو عطا نہ کرنے کی جو وجوہات قرآن پاک میں درج ہیں وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں ۔مگر کیا اس سے حضور رسالت مآبؐ کی شانِ مبارک میں فرق نہیں آتا کہ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو نشانیاں اور معجزات اﷲ تعالیٰ نے عطافرمائے کہ جن کی شہادت قرآن پاک خود دے رہا ہے اور حضورﷺ کو اس سے بالکل جواب دے دیا؟
سیرت نبوی میں حضور ﷺ کے بہت سے معجزات درج ہیں ۔مثلاًمعجزۂ شق القمر، تھوڑے سے تھوڑے کھانے سے جماعت کثیر کا سیر ہو جانا، کنکریوں کا کلمۂ شہادت پڑھنا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بظاہر قرآنی شہادت کی بِنا پر غلط معلوم ہورہے ہیں ۔

حیاتِ برزخ اور سماعِ موتیٰ

تفہیم القرآن کا مطالعہ کررہا ہوں ۔ الحمد ﷲ بہت اچھے طریقے سے مضامین قرآن مجید دل نشین ہوجاتے ہیں ۔لیکن بعض مواقع پر کچھ اشکال محسوس ہوئے ہیں ۔ ان کو پیش خدمت کیے دیتا ہوں ، براہِ کرم ان کاحل تجویزفرما کر مرحمت فرمائیں ۔ یہ چند معروضات اس لیے ارسال کررہا ہوں کہ میں نے آپ کی تصنیفات میں سے رسائل ومسائل حصہ اوّل ودوم اور تفہیمات حصہ اوّل و دوم کو بہ نظر غائر دیکھا ہے۔ ان میں آپ نے جن آیات اور احادیث پر قلم اٹھایا ہے،ان کے مفاہیم کو دلائل سے واضح فرمایا ہے۔بنا بریں میں امید کرتا ہوں کہ میری پیش کی ہوئی گزارشات کو بھی دلائل سے بیان فرما کر میری تشفی فرمائیں گے۔
فَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ({ FR 2250 }) (یونس:۲۹) کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’یعنی وہ تمام فرشتے اور وہ تمام جن وارواح، اسلاف واجداد، انبیا (؊) اولیا، شہدا وغیرہ جن کو خدائی صفات میں شریک ٹھیرا کر وہ حقوق انھیں ادا کیے گئے جو دراصل خدا کے حقوق تھے،وہا ں اپنے پرستاروں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہماری عبادت بجا لارہے ہو۔ تمھاری کوئی دعا، کوئی التجا، کوئی پکار او ر فریاد، کوئی نذرونیاز، کوئی چڑھاوے کی چیز، کوئی تعریف ومدح اور ہمارے نام کی جاپ اور کوئی سجدہ ریزی وآستانہ بوسی ودرگاہگردی ہم تک نہیں پہنچی۔‘‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جتنے لوگ مرچکے ہیں ،خواہ وہ انبیا؊ ہوں یا اولیاے کرام ہوں ، وغیرہ، ان کے مزاروں اور قبروں پر جاکر لوگ چیخیں چلائیں اور حاجات کے لیے پکاریں ،وہ اس سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں اور کچھ نہیں سنتے، اور اس مضمون پر بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں ۔ مثلاً سورۂ النحل فَاَلْقَوْا اِلَيْہِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَ ({ FR 2251 }) (النحل:۸۶) میں بھی آپ نے تصریح فرمائی ہے۔ اور اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی({ FR 2252 }) (النمل:۸۰) وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ ({ FR 2253 }) (فاطر:۲۲) اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاءَكُمْ ({ FR 2254 }) (فاطر:۱۴) وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَہٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ({ FR 2255 }) (الاحقاف:۵) لیکن جب حدیث کی طرف نظر پڑتی ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زیارت کرنے والے کو پہچان لیتے ہیں اور سلام کا جواب بھی دیتے ہیں ۔ یہاں پہنچ کر ذہن قلق واضطراب کا شکار ہوجاتا ہے اور کوئی صحیح مطلب برآری نہیں کرسکتا اور نہ کوئی صحیح تأویل سمجھ میں آتی ہے ۔ لہٰذا اس مضمون کی چند حدیثیں پیش خدمت کرتا ہوں ،براہِ کرم ان حدیثوں کا مطلب بیان فرما کر عقدہ کشائی فرما ویں ۔
(۱)مقتولین بدر سے حضور ﷺکا اَلَیْسَ قَدْ وَ جَدتُّمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًا({ FR 2087 }) فرمانا اور حضرت عمر ؓ کا یہ کہنا : ’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا ({ FR 1944 }) اور حضورﷺکا ارشاد فرمانا: مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْھُمْ صاف دلالت کرتاہے کہ مردے سنتے ہیں ۔ اس حدیث کی تأویل جو حضرت عائشہؓ سے منقول ہے،اس کی رو سے حضرت عمرؓ کے سوال اور حضورؐ کے جواب میں کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔
(۲) مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ رَجُلٍ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا، فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلَّا عَرَفَهُ وَرَدَّ عَلَيْهِ({ FR 1945 })
(۳) فی الصحیحین من قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: إِنَّ العَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ({ FR 1946 })
دوسری چیز جو قابل توضیح ہے وہ یہ ہے کہ سورۂ النحل کی اس آیت وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــًٔـا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَo اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ (النحل:۲۱-۲۰)کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ’’یہاں جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جارہی ہے وہ فرشتے یا جن یا شیاطین یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں بلکہ اصحاب قبور ہیں ۔‘‘ اور کچھ آگے چل کر تحریرفرماتے ہیں کہ ’’لامحالہ اس آیت میں وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد انبیا،اولیا،شہدا، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں …الخ۔‘‘ اب عرض یہ ہے کہ سورۂ البقرہ میں اﷲ تعالیٰ نے شہدا کو موتیٰ کہنے کی نہی فرمائی ہے۔ ارشاد موجود ہے: وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (البقرہ:۱۵۴) اسی سورت میں اﷲ تعالیٰ نے شہدا کو اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاءٍ کیوں کہا؟ بظاہر آپ کی تشریح کے لحاظ سے ان دونوں آیتوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاءٍ کے عموم میں آپ نے انبیا ؊ کو بھی داخل کیا ہے، حالاں کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیا؊ قبروں میں جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں ، وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں ،سلام سنتے ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں ۔
(۱)اَلْاَنْبِیَائُ اَحْیائٌ فِیْ قُبُوْرِ ھِمْ یُصَلُّونَ۔({ FR 1947 })
(۲) مَرْرْتُ بِمُوْسٰی لَیْلَۃَ اُسْرِیَ بِہٖ وَھُوَقَائِمٌ یُصَلّیِ فِیْ قَبَرہٖ۔({ FR 1948 })
(۳) مَنْ صلّٰی عَلیَّ عَنْدَ قَبْرِیْ سَمِعُتہُ وَمَنْ صَلّٰی عَلیَّ نَائِیًا اُبْلٍغْتُہ۔({ FR 1949 })
حتیٰ کہ بعض بزرگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بعد از وفات حضورﷺ[حضور نہیں بلکہ حضرت زید بن خارجہ انصاریؓ] کے ہونٹوں میں حرکت ہوئی اور جنازہ میں کلام فرمایا کہ بئرأریس وما بئر اریس ؟({ FR 2256 }) سوف تعلمون[یہ اضافہ ہے] اور قبر میں کلام فرمایا جس کو بعض اصحاب نے سنا۔ یہ تو وفات کے فوری بعد کی بات تھی کہ روح نے جسم کوکلیتاً نہیں چھوڑا تھا لیکن بعد میں تاحشر بھی روح کا وہی تعلق بدن سے قائم رہے گا۔ خیر بزرگوں کے اقوال کو چھوڑیے۔ مذکورہ بالا حدیثیں آپ کی تفسیر کے خلاف پڑتی ہیں ، براہِ کرم ان کی تشریح کیجیے۔

سات آسمانوں کی حقیقت

آپ نے سورۂ البقرہ کے حاشیہ نمبر۳۴ میں لکھا ہے کہ سات آسمانوں کی حقیقت کا تعین مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سات آسمانوں سے انکار کر رہے ہیں ۔ یا تو آپ سے اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے جیسی غلطیاں دوسری تفاسیر میں موجود ہیں ، یا پھر غلطی نہیں تو آپ یہ کیوں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یا یہ ہے یا وہ ہے۔آپ صاف طور پر کسی ایک مفہوم کا اقرار یا انکار کیو ں نہیں کرتے؟

مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ میرا ایمان ہے کہ قرآن شریف ہمیں ہر شعبۂ زندگی میں راہ نمائی عطا فرماتا ہے تو سائنس اور انجینئرنگ کی ترقی اور نئے نئے سائنسی راز جاننے کے لیے بھی اس میں بہت سے ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی مدد سے مسلمان اس میدان میں ترقی کرکے انسانی فلاح و بہبود اور اپنے دفاع میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ قرآن شریف سے اپنے فارغ وقت میں میں نے چند ایسے راز جاننے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ میں نے ایک ادنیٰ سا اٹامک انرجی کا انجینئر اور سائنس دان ہونے کی حیثیت سے ان چیزوں کے معنی اپنے نقطہ نگاہ سے اور اپنے ہی نظریے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس لیے اس کے صحیح مفہوم سمجھنے اور وضاحت کے لیے براہ کرم ان آیات کا مطلب مجھے سمجھا دیں تاکہ میں اپنی تحقیق سائنس کے اس شعبے میں صحیح طرح سے جاری رکھ کر مسلمانوں کے لیے کوئی نئی چیز ایجاد کرسکوں ۔
سورہ آیات
(۱) ھود ۹۴ -۹۵
(۲) الحجر ۸۳ -۸۴
(۳) المؤمنون ۴۱
(۴) یٰسٓ ۲۸-۲۹
(۵) صٓ ۱۴-۱۵
(۶) الحاقہ ۱،۲،۳،۴،۵،۱۳،۱۴،۱۵
(۷) القارعہ ۱،۲،۳،۴،۵
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو پھر بعد میں بتا دوں گا۔ ان آیات کی مدد سے ہم ایٹم کی شعاعوں ، ایٹم کی حیثیت، زمین کی گردش، آواز وغیرہ کے آپس کےinteractionکے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں ۔

رفعِ طور کی کیفیت

وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَکی آپ نے جو تفسیر فرمائی ہے وہ بھی مفسرین کے خلاف ہے، بلکہ قرآن کے بھی خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن میں دوسری جگہ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ کے الفاظ نے آپ کی تفسیر کی واضح تردید کردی ہے۔

اصحاب ِکہف کی مدتِ نوم

اصحاب کہف کے متعلق جب کہ ان کے غار میں سونے کی مدت قرآن میں صریحاًمذکور ہے،آپ نے تاریخ پر اعتماد کرتے ہوئے تفاسیرقدیمہ بلکہ قرآن کے بھی خلاف لکھا ہے۔

یہود کی ذلت ومسکنت

میرے ذہن میں د و سوال بار بار اُٹھتے ہیں ۔ایک یہ کہ وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ ({ FR 2243 }) (البقرہ:۶۱) جو یہود کے بارے میں نازل ہوا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اس کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے تو فلسطین میں یہود کی سلطنت کے کیا معنی؟ میری سمجھ میں اس کی تفسیر انشراحی کیفیت کے ساتھ نہ آسکی۔ اگر اس کے معنی یہ لیے جائیں کہ نزول قرآن پاک کے زمانے میں یہود ایسے ہی تھے تو پھر مفسرین نے دائمی ذلت ومسکنت میں کیوں بحثیں فرمائی ہیں ۔ بہرحال یہود کے موجودہ اقتدار وتسلط کو دیکھ کر ذلت ومسکنت کا واضح مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔

جن قوموں میں انبیا ؊ مبعوث نہیں ہوئے ،اُن کا معاملہ

قرآن شریف کا مطالعہ کرتے وقت بعض ایسے قوی شبہات وشکوک طبیعت میں پیداہوجاتے ہیں جو ذہن کو کافی پریشان کردیتے ہیں ۔ ایک تو نقص ایمان کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں قرآن کی آیات پر نکتہ چینی واعتراض کرنے سے ایمان میں خلل نہ واقع ہوجائے،لیکن آیت کا صحیح مفہوم ومطلب نہ سمجھ میں آنے کے باعث شک میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔میں ان آیات کا مطلب سمجھنے کے لیے اُردو و عربی تفاسیر کا بغور مطالعہ کرتا ہوں لیکن طبیعت مطمئن نہیں ہوتی اور اضطراب دور نہیں ہوتا تو پھر گاہ بگاہ جناب کی طرف رجوع کرلیتا ہوں ،مگر آپ کبھی مختصر جواب دے کر ٹال دیتے ہیں ۔البتہ آپ کے مختصر جوابات بعض اوقات تسلی بخش ہوتے ہیں ۔آج صبح کو میں حسب دستور تفسیر کا مطالعہ کررہا تھا،سورۂ یٰسٓ زیر مطالعہ تھی کہ مندرجہ ذیل آیت پر میں ٹھیر گیا:
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ (یٰس:۶)
’’ تاکہ تم ڈرائو ان لوگوں کو جن کے آبا و اجداد نہیں ڈراے گئے تھے، پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
اس کی تفسیر میں یہ الفاظ تحریر تھے:
لِاَ نَّ قُرَیْشًا لَمْ یَأتِھِمْ نَبِیٌّ قَبْلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ({ FR 2242 })
’’کیونکہ قریش کی طرف محمد ﷺسے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھا۔‘‘
دریافت طلب امر یہ ہے کہ قبل از بعثت محمدؐ جب کہ سرزمین عرب میں کوئی نبی ورسول مبعوث نہیں ہوا تو پھر کیا یہ لوگ اصحاب الجنۃ ہوں گے یا اصحاب النار یا اصحاب اعراف میں سے ہوں گے؟ اسی مضمون کی کچھ اور آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن قوموں پر اتمام حجت نہیں ہوا،وہ بری الذمہ ہونی چاہییں ،البتہ وہ لوگ جن کے کانوں تک پیغمبر اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہو،پھر وہ ایمان سے منہ موڑیں ،تو یہ لوگ واقعی معتوب ہونے چاہییں ۔ ایک دوسری آیت اسی مقصد کی تائید کرتی ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ( بنی اسرائیل:۱۵)
’’ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘