مقررہ حلقے میں سفر کا حکم
کیا ایک مقررہ حلقے میں سفر کرنے پر بھی یہ رعایت حاصل ہوگی؟
کیا ایک مقررہ حلقے میں سفر کرنے پر بھی یہ رعایت حاصل ہوگی؟
کیا یہ فاصلہ یک طرفہ سفر کے لیے ہے یا آمد ورفت کی دُہری مسافت بھی شمار ہوگی؟
میرے بعض عراقی دوست جو کئی سالوں سے لندن میں مقیم ہیں ،اب تک نماز قصر کرکے پڑھتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ مسافرت کی حد نہ قرآن میں آئی ہے اور نہ حدیث میں ،فقہا کی اپنی اختراع ہے، لہٰذا ہم نہیں مانتے۔جب تک اپنے وطن سے باہر ہیں ،مسافر ہیں ۔قصر کریں گے،چاہے ساری عمر لندن میں گزر جائے۔ان کو کس طرح مطمئن کروں کہ ان کی روش غلط ہے؟
ریڈیو ایک ایسا آلہ ہے جو ایک شخص کی آواز کو سیکڑوں میل دور پہنچا دیتا ہے۔اسی طرح گرامو فون کے ریکارڈوں میں انسانی آواز کومحفوظ کرلیا جاتا ہے اور پھر اسے خاص طریقوں سے دہرایا جاسکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اِمام ہزاروں میل کے فاصلے سے بذریعۂ ریڈیو اِمامت کراے یا کسی اِمام کی آواز کو گرامو فون ریکارڈ میں منضبط کر لیا گیا ہو اور اسے دہرایا جائے، تو کیا ان آلاتی آوازوں کی اقتدا میں نماز کی جماعت کرنا جائزہے؟
اکثر لوگ وتر کی تیسری رکعت میں بالالتزام سورۂ الاخلاص پڑھتے ہیں اور یہ بات خاص طور سے رمضان میں نظر آتی ہے جب تراویح کے بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں ۔کیا یہ التزام کسی دلیل پر مبنی ہے یا محض رواج پر؟کیا یہ التزام درست ہے؟
یہاں (اسلامک کلچر سنٹر لندن میں ) چند انگریزلڑکیاں جمعہ کے روز آئی ہوئی تھیں ۔ بڑے غور سے نماز کو دیکھتی رہیں ۔ بعد میں انھوں نے ہم سے سوال کیا کہ آپ لوگ جنوب مشرق کی طرف منہ کرکے کیوں نماز پڑھتے ہیں ؟ کسی اور طرف کیوں نہیں کرتے؟ کعبہ کو کیوں اہمیت دیتے ہیں ؟
شریعت میں نماز باجماعت کی کیا حیثیت ہے؟یہ واجب ہے، یا سنت مؤکدہ ہے‘ یا واجب بالکفایہ‘ یا سنت مؤکدہ بالکفایہ ہے؟ کن حالات یا عذرات میں اس کے وجوب یا تاکید کی سختی کم ہوجاتی ہے؟یہاں مسجدیں کم اور دور دور ہیں ، لہٰذا اکثر لوگ گھروں میں نماز پڑھتے ہیں ۔ حالاں کہ اگر وہ چاہیں تو تھوڑی سی زحمت گوارا کرکے مسجد میں پہنچ سکتے ہیں ۔ لیکن کوئی تو قافلے کا عذر کرتا ہے ،کوئی اندھیر ی رات کا،کوئی پانی اور کیچڑ اور راستے کی خرابی کا۔ کیا یہ عذر معقول ہیں ؟ بعض لوگ ہیں جو اپنی دکان پر ہی نما زپڑھتے ہیں اور تنہا ہونے کا عذر پیش کرتے ہیں ۔ان میں جماعت کے ارکان اور متفقین بھی ہیں ۔ یہ لوگ اجتماع کرتے رہتے ہیں اور جماعت کا وقت نکل جاتا ہے۔بعد میں فرداً فرداً ادا فرماتے ہیں ۔تحریر فرمایئے کہ یہ سب باتیں کہاں تک درست ہیں ؟
توجہ اور حضور قلب کی کمی کیا نماز کو بے کار بنادیتی ہے؟نماز کو اس خامی سے کیوں کر پاک کیا جائے؟نماز میں عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نہایت بے حضوری قلب پیدا ہوتی ہے اور ہو نی بھی چاہیے۔ کیوں کہ ہم سوچتے ایک زبان میں ہیں اور نماز دوسری زبان میں پڑھتے ہیں ۔اگر آیات کے مطالب سمجھ بھی لیے جائیں تب بھی ذہن اپنی زبان میں سوچنے سے باز نہیں رہتا۔
مقامی حلقوں میں میرے خلاف بعد نماز ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنے پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ یہاں بہت زیادہ آبادی ایک ایسے مسلک کے پیروں کی ہے جن کا امتیازی شعار ہی یہ ہے کہ دُعا میں ہاتھ نہ اُٹھائے جائیں ۔یہ حضرات میرے خلاف اپنے اعتراض میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً ( الاعراف:۵۵)’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے‘‘ کے ارشاد کا تقاضا یہی ہے کہ دعا میں حد درجے اخفا برتا جائے۔ بخلاف اس کے ہاتھ اُٹھانے سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ بدیں وجہ دعا میں ہاتھ اُٹھانا قرآن کے منشا کے خلاف ہے۔ نیز احادیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے کبھی اس کاالتزام کیا ہو۔ اب عوام کو دلائل سے تو کچھ مطلب نہیں ہوتا،وہ لکیر کی فقیری کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ مجھے صاف صاف کہہ دیاگیا ہے کہ میں ان کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کاحق نہیں رکھتا۔اس حکم کے نافذ کرنے والوں میں بعض حضرات خوب اچھے تعلیم یافتہ بھی ہیں ۔ خیر یہ جاہلیت کے کرشمے ہیں ۔ مجھے صرف مذکورۃ الصدر آیت کی روشنی میں اصل مسئلے کو سمجھائیے۔
آج آپ کی خدمت میں ایک خلش پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔ توقع ہے کہ میری پوری مدد فرمائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں ایک بریلوی خاندان کا فرد ہوں ۔ بچپن میں غیر شعوری حالت میں والد بزرگوار نے حضرت سلطان باہوؒ کے سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم کے ہاتھ پر میری بیعت کرائی۔
حضرت سلطان باہوؒ ضلع جھنگ کے ایک مشہور باخدا بزرگ ہیں جو حضرت اورنگ زیب عالم گیر کے زمانے میں گزرے ہیں ۔حضرت نے تبلیغ واشاعت دین میں پوری ہمت دکھائی اور جہاد میں بھی شرکت فرمائی۔
سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم فرائض کے پابند، کبائر سے مجتنب خدا یاد آدمی تھے۔دربار میں جاتے تو مسنون طریقے سے دُعاے مغفرت کرتے۔ لوگوں نے دربار کا طواف شروع کردیا تو موصوف نے دربار کے اندر ایک ایسی دیوار بنوا دی جس سے طواف ناممکن ہو گیا۔ ان کے ان اعمال اور خدا یاد ہونے کی وجہ سے مجھے ان سے بے حد عقیدت تھی۔مگر افسوس کہ اکتساب سے قبل میری کم عمری میں انتقال فرما گئے۔ پھر ایک ا ور بزرگ سے کچھ اوراد حاصل کیے جنھیں باقاعدگی سے پڑھتا تھا کہ۱۹۴۳ء میں جماعت کی رکنیت سے سرفراز ہوا۔
اس کے بعد میرے اندر ایک زبردست کش مکش ہوئی۔ وہ یہ کہ سکون قلب کے لیے رکنیت اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا کافی محسوس ہوتا رہا۔ مگر ساتھ ہی اپنی توجہات کو سمیٹ کر ایک مرکز پر مجتمع رکھنے کے لیے اورادو وظائف کی تشنگی محسوس ہوتی۔اس مقصد کے لیے جب مختلف حضرات کی طرف نظر دوڑاتا تو اقامت دین کے بنیادی تقاضوں سے ان کی غفلت ان کی ساری وقعت گھٹا دیتی۔ اس کش مکش میں مدت ہوئی مبتلا ہوں ۔ بعض دوستوں سے اپنی حالت کا ذکر بھی کرچکا ہوں ۔ بالا ٓخر طبیعت کارجحان اس طرف ہوا کہ اس معاملے میں بھی آپ ہی کی طرف رجوع کروں ۔
میری درخواست ہے کہ اذکارواورادِ مسنونہ میں سے کچھ ایسی چیز یا چیزیں میرے لیے تجویز فرمائیں جو:
(۱) میری طبیعت سے مناسبت رکھتی ہوں ۔ اور
(۲) جن سے پندرہ بیس پچیس منٹ صرف کرکے اپنی توجہات کو سمیٹنے میں مدد لیا کروں ۔مجھے پوری توقع ہے کہ آپ اس معاملے میں بھی راہ نمائی کریں گے۔