عورت کا حق ِ مہر

ایک پیچیدہ مسئلہ درپیش ہے۔ بہ راہِ کرم شریعت کی روشنی میں جواب سے نوازیں ۔ ہمارے یہاں ۱۹۸۴ میں ایک نکاح ہوا تھا۔ اس وقت لڑکے کے والد کی اجازت سے سڑک کی ایک کنال زمین (ایک بیگھے کا چوتھائی حصہ) اور ایک عدد اخروٹ کا درخت لڑکی کا مہر مقرر ہوا تھا۔ آج تقریباً بائیس سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد کسی گھریلو جھگڑے کی وجہ سے لڑکی کا حصہ ہڑپ کیا جارہا ہے۔ لڑکے کا باپ کہتا ہے کہ میرا لڑکا اپنے طور سے اپنی بیوی کا مہر ادا کرے اور میری زمین اور اخروٹ کا درخت مجھے واپس کردے۔ ہاں ، میرے مرنے کے بعد میری وراثت میں سے اس کے حصہ میں جو جائیداد آئے اس میں سے وہ ایک کنال زمین اور اخروٹ کا درخت اپنی بیوی کو دے سکتا ہے۔ اس لڑکے کا ایک چھوٹا بھائی ہے وہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ میرے بڑے بھائی کی طرف سے، جو مہر اس کی بیوی کو دیا گیا ہے وہ میری بیوی کے مہر کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ کیوں کہ آج کل ایک کنال زمین کی قیمت چار لاکھ روپیے سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور اس پر مستزاد کئی ہزار کی قیمت کا اخروٹ کا درخت بھی ہے۔ اس لیے یہ بڑی ناانصافی ہوگی کہ میرے بڑے بھائی کی بیوی کو زیادہ مہر مل جائے اور میری بیوی کو کم مہر ملے۔

بدلے کی شادی

ہمارے ملک کے بعض حصوں میں بدلے کی شادیوں کا رواج ہے۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے رسائل و مسائل جلد دوم میں لکھا ہے کہ ’’عام طور پر ادلے بدلے کے نکاح کا، جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے وہ دراصل اسی شغار کی تعریف میں آتا ہے، جس سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔‘‘ مولانا مودودیؒ نے شغار کی تین صورتیں بتائی ہیں : ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس شرط پر اپنا لڑکا دے کہ وہ اس کے بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔
دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو، مگر دونوں کے برابر برابر مہر (مثلاً ۵۰، ۵۰ہزار روپیہ) مقرر کیے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کیا جائے، دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔
تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو، بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔
آگے مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ ’’پہلی صورت کے ناجائز ہونے پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ البتہ باقی دو صورتوں کے معاملے میں اختلاف واقع ہوا ہے۔‘‘ انھوں نے فقہاء کے اختلاف کی تفصیل نہیں دی ہے۔ البتہ خود ان کے نزدیک تینوں صورتیں خلاف شریعت ہیں ۔ بہ راہِ کرم موخر الذکر دونوں صورتوں میں اختلافِ فقہاء کی کچھ تفصیل فراہم کردیں ۔

دلہن کے لیے پالکی کا استعمال

یہاں شادی بیاہ کے مواقع پر دلہن کو پالکی میں بٹھا کر محرم و نامحرم ہرکس و ناکس اٹھا کر دولہا کے گھر تک لے جاتے ہیں ۔ یا پہاڑی راستے کو عبور کرکے روڈ پوائنٹ تک لے جاتے ہیں ۔ ایسا کرنے میں کوئی شرعی ممانعت تو نہیں ہے؟ آں حضور ﷺ کے زمانے میں اس قسم کی کوئی مثال ملتی ہے یا نہیں ؟ پہاڑی علاقوں میں بسا اوقات سخت نشیب یا چڑھائی پر دلہن کو لے جانا پڑتا ہے۔ اس سے اس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ دلہن کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن سے ایک قسم کی ہمیشہ کی جدائی کی فکر ہوتی ہے، مزید برآں سخت سفر کی دقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اس پریشانی سے بچنے کے لیے پالکی کا استعمال اس کے لیے ایک بھروسہ و تسلی کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ برائے مہربانی تفصیل سے جواب دیجیے کہ کیا ایسے حالات میں پالکی کا استعمال جائز ہوگا؟

شادی کی رسمیں

درج ذیل مسئلہ میں آپ سے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب کی خواہش ہے۔
نکاح ایک مسنون عمل ہے۔ اس میں ہمارے سماج میں ان چیزوں پر عمل کیا جاتا ہے:
(۱) لڑکی کی شادی میں بہت زیادہ کھانا بنوانا اور دعوت کے وقت پلنگ تخت لے کر بیٹھ جانا، تاکہ دعوت میں آنے والے اپنا نام لکھوا کر روپے یا جہیز میں دیا جانے والا سامان لکھوائیں ۔ بنا لکھوائے شاید ہی کوئی دعوت میں شرکت کرتا ہو۔ لڑکی کے نکاح میں اس طرح کا رواج غیراسلامی نظر آتا ہے۔ مگر ارکان جماعت اسلامی بھی سماج کے طور طریقے کے مطابق ہی شادی کرتے ہیں ۔ اسلام پسند نوجوانوں کو اعتراض ہے۔ ان کا اعتراض درست ہے؟ یا ارکان جماعت کا سماجی رسوم کو پورا کرنا صحیح ہے؟ جہیز دینا اور لینا کیسا ہے؟
(۲) لڑکے کی شادی میں بارات کا رواج ہے اور ارکان جماعت بھی اپنے بچوں کی شادی میں بارات لے جانے کا طریقہ اپناتے ہیں ۔ البتہ گانے بجانے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ بارات کی دعوت اور بارات لے کر لڑکی کے گھر جانا، کھانا کھانا کیسا ہے؟
(۳) ولیمہ اور عقیقہ کی دعوت میں عام طور پر مردوں کو دعوت کم دی جاتی ہے اور عورتوں کو زیادہ مدعو کیا جاتاہے، تاکہ سامان موقعے کی مناسبت سے خوب آئے۔
بہ راہ کرم مذکورہ بالا رسوم کے سلسلے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔

کیا آبِ زم زم کھڑے ہوکر پینا مسنون ہے؟

گزشتہ دنوں سفرِ حج سے واپس آنے والے بعض حضرات کی طرف سے کھجور اور آبِ زم زم کا تحفہ ملا۔ ایک موقعے پر میں نے آبِ زم زم بیٹھ کر پیا تو ایک صاحب نے ٹوک دیا کہ زم زم کھڑے ہوکر پینا مسنون ہے۔ میں نے اس سلسلے میں تحقیق کی تو بعض کتابوں میں یہ لکھا ہوا پایا کہ زم زم قبلہ رخ کھڑے ہوکر پینا چاہیے۔ لیکن ان میں کوئی شرعی دلیل نہیں دی گئی تھی۔ اس لیے اطمینان نہ ہوسکا۔ بہ راہ کرم اس سلسلے میں تحقیقی جواب مرحمت فرمائیں کہ کیا آبِ زم زم کھڑے ہوکر پینا مسنون ہے؟

شوہر کے ساتھ حج

اگر مجھے حج پر جانا ہو تو کیا ضروری ہے کہ اس کے لیے پیسوں کا انتظام میں خود کروں ، بہ الفاظ دیگر کیا اپنے پیسوں ہی سے میں حج کرسکتی ہوں ؟ واضح کردوں کہ میرے گھر میں ایسا معاملہ نہیں ہے کہ میرے پیسے یا میری پراپرٹی الگ ہو۔ جو کچھ شوہر کا ہے وہی میرا بھی مانا جاتا ہے۔ اگر شوہر انتظام کرکے مجھے حج پر لے جائیں تو کیا میں یہ حج کرسکتی ہوں ؟

چاند دیکھ کر افطار کرنا

ایک صاحب نے چاند دیکھ کر افطار کیا، حالاں کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا، بلکہ عصر ہی کا وقت تھا۔ اگر چاند دیکھ کر روزہ رکھنا ہے اور چاند دیکھ کر افطار کرنا ہے تو پھر قرآن کی اس آیت کا حق کہاں ادا ہوا کہ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ (اپنا روزہ رات تک پورا کرو)۔ جہاں تک روزہ رکھنے کا سوال ہے وہ ماہ رمضان کا چاند نظر آنے پر ہی رکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو شوال کا چاند سورج غروب ہونے سے پہلے یا عصر کے وقت ہی دکھائی دے تو کیا اسی وقت افطار کرنا چاہیے، یا پھر معمول کی طرح سورج غروب ہونے کے بعد افطار کرنا چاہیے؟ بہ راہ کرم اس سلسلے میں مکمل رہ نمائی فرمائیں ۔

زیورات پر زکوٰۃ

میرا تعلق درمیانی طبقہ سے ہے۔ میری شادی کو ایک سال سے کچھ زائد ہوچکا ہے۔ مجھے اپنی شادی میں اتنے زیورات ملے تھے، جن پر زکوٰۃ نکالنا فرض ہوجاتا ہے۔ زیورات پر زکوٰۃ کے سلسلے میں جب میں نے اپنے شوہر محترم سے رجوع کیا تو انھوں نے مجھے ایک عجیب سی الجھن میں ڈال دیا۔ کہنے لگے کہ زیورات آپ کی ملکیت ہیں ۔ ان کی زکوٰۃ آپ ہی کو نکالنی ہے۔ انھوں نے مہر کی رقم ادا کردی تھی۔ میں نے اس رقم کو بھی زیورات میں تبدیل کرلیا تھا۔ سسرال میں میرے پاس اپنی کوئی جائیداد تو ہے نہیں ۔ میری ساری جمع پونجی یہی زیورات ہیں ۔ ان کی زکوٰۃ کس طرح نکالوں ، یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ زکوٰۃ کے لیے درکار پیسے کہاں سے لاؤں ؟ والدین کی طرف بھی رجوع نہیں کرسکتی، کیوں کہ وہ اپنی ضرورتیں بھی بڑی مشکل سے پوری کر پاتے ہیں ۔
یہ اکیلے میرا مسئلہ نہیں ہے۔ درمیانی طبقے کی ہماری زیادہ تر بہنوں کے پاس اپنے زیورات کے علاوہ اور کوئی جائداد تو ہوتی نہیں ہے۔ ہم اپنے زیورات بیچ کر ہی ان کی زکوٰۃ ادا کرسکتی ہیں ۔ اس طرح چند سالوں میں ان کی مالیت اتنی کم ہوجائے گی کہ زیورات کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ درمیانی طبقے کی خواتین کے لیے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ زکوٰۃ نہ نکالنے پر احساسِ گناہ کے ساتھ زیورات کو زیب تن کرنا ان کا مقدّر بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں دو سوالات جواب طلب ہیں :
(۱) کیا بیوی کی ملکیت والے زیورات کی زکوٰۃ نکالنا شوہر پر فرض نہیں ہے؟
(۲) اگر شوہر سے الگ بیوی کے پاس اپنی جداگانہ ملکیت ہو تو کیا اسلام میں اسے اپنی جائداد کے انتظام کی وہی آزادی حاصل ہے، جو شوہر کو اپنی جائداد کے لیے حاصل ہے؟

کرنسی نوٹ میں زکوٰۃ کا نصاب

زکوٰۃ کے لیے موجودہ کرنسی نوٹ کی مقدار کیا ہے؟ ساڑھے سات تولہ سونا کے برابر یا ۵۲ تولہ چاندی کے برابر کی رقم، معیار سونا ہے یا چاندی؟