نفسِ اَمّارہ سے بچنے کے لیے کارگر ہتھیار
شیطان اور نفس امارہ کے حملوں سے بچنے کے لیے کون کون سے شرعی اصول وضوابط اختیار کیے جائیں تاکہ حلاوت ایمان نصیب ہو اور کفر وعصیان سے دل بیزار ہو۔ کیا اورادو وظائف بھی اس مقصد کے حصول میں معاون ہوسکتے ہیں ؟
شیطان اور نفس امارہ کے حملوں سے بچنے کے لیے کون کون سے شرعی اصول وضوابط اختیار کیے جائیں تاکہ حلاوت ایمان نصیب ہو اور کفر وعصیان سے دل بیزار ہو۔ کیا اورادو وظائف بھی اس مقصد کے حصول میں معاون ہوسکتے ہیں ؟
آپ حضرات موجودہ برسرا قتدار طبقہ اور امرا پر سخت تنقید کرتے ہیں ،اس بنا پر کہ وہ زبان سے تو’’اسلام اسلام‘‘پکارتے ہیں ، عوام اور غربا کی ہم دردی کا راگ الاپتے ہیں ،مگر ان کے اعمال ان کے اقوال سے سراسر مختلف ہیں ۔ لہٰذا خود آپ حضرات کے لیے تو یہ اشد ضروری ہے کہ(جب کہ آپ ایک اسلامی سوسائٹی برپا کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ) آپ کے اقوال و افعال میں کامل یکسانیت ہو۔ ورنہ آپ کی تنقید موجودہ اُمرا اور برسر اقتدارطبقے پر بے معنی ہے۔
میں جانتاہوں کہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی جائز کمائی سے اپنے آرام وآسائش کے سامان مہیا کریں ،اچھی غذائیں کھائیں ، مگر کیا ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف بھوک اور افلاس ہو،غریبی اور بے چارگی ہو،خصوصاًایک داعی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اچھے ملبوسات استعمال کرے،عمدہ غذائیں کھائے اور ایک پُرتکلف زندگی گزارے؟کیا رسول اﷲ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کی یہی روش تھی جب کہ وہ اسلامی تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھے؟آپ کے بعض ارکان کی ایک حد تک متعیشانہ (luxurious) طرزِ زندگی کو دیکھ کر میرے اندر یہ سوال پیدا ہوا ہے۔براہِ کرم میرے اس ذہنی خلجان کو دور کردیں ۔
اسلاف کی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’علمِ باطنی‘‘ ایک ایسا علم ہے جو قرآن و حدیث وغیرہ علوم سے جدا محض ریاضات ومجاہدات سے حاصل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اُمت مسلمہ میں بکثرت انسان ایسے ہوئے ہیں جن کی زندگیوں میں یہ ترتیب ملتی ہے کہ پہلے انھوں نے کتاب و سنت اور فقہ وکلام وغیرہ علوم کی تحصیل کی اور ان کو’’علمِ ظاہری‘‘ کا خطاب دیا۔ اس کے بعد’’ علوم باطنی‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لیے سخت ریاضتیں کیں ، تب کہیں جاکر انھیں ’’روحانی ‘‘علوم حاصل ہوئے اور ان کو انھوں نے ہمیشہ علومِ ظاہری پر ترجیح دی۔ براہ کرم کچھ اس پر روشنی ڈالیں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے علمِ باطنی کی کیا تعریف ہے؟اس کی حقیقت کیا تھی؟اس میں کتنی رنگ آمیزیاں ہوئیں ؟کیا یہ علم ریاضات ومجاہدات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا؟اور کیا علومِ ظاہری کی تحصیل کے بغیر بھی یہ علم حاصل ہوسکتا ہے؟
میرا تیسرا بیٹا پونے چار سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔اﷲ تعالیٰ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ یہاں آکر پہلے دو لڑکے فوت ہوئے، اب یہ تیسرا تھا۔ اب کسی نے شبہہ ڈالا تھا کہ جادو کیا گیا ہے۔ جس دن سے یہ بچہ پیدا ہوا، اسی دن سے قرآن پاک کی مختلف جگہوں سے تلاوت کرکے دم کرتا رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے لڑکے پونے دو سال کی عمر میں فوت ہوتے رہے، یہ پونے چار سال کو پہنچ گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جادو بھی چند الفاظ ہوتے ہیں ۔ اس کے توڑنے کو قرآن پاک کے الفاظ تھے۔ پھر دعائیں بھی بہت کیں ۔ بوقت تہجد گھنٹوں سجدے میں پڑا رہا ہوں ۔ لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی۔ حالاں کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات حاضر وناظر اور سمیع وبصیر ہے۔ کیا حق تعالیٰ جادو کے اثر کے لیے مجبور ہی ہوجاتے ہیں ؟ لوگ قبر والوں کے نام کی بودیاں رکھ کر پائوں میں کڑے پہنا کر اولاد بچاے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے اسے شرک سمجھ کر اس کی طرف رجوع نہ کیا۔ لیکن ہمیں بدستور رنج اٹھانا پڑا۔اکٹھے تین داغ ہیں جو لگ چکے ہیں ۔براہِ کرم اس غم وافسوس کے لمحات میں راہ نمائی فرمائیں ۔
لفظ شیطان کی ماہیت کیا ہے جو قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور یوں بھی عام فہم زبان میں استعمال ہوتا ہے۔کیا شیطان ہم انسانوں جیسی کوئی مخلوق ہے جو زندگی وموت کے حوادث سے دوچار ہوتی ہے اور جس کا سلسلہ توالد وتناسل کے ذریعے قائم ہے؟کیا یہ بھی ہماری طرح ہم آہنگی میں مربوط ہوتی ہے جس طرح سے ہم کھانے کمانے اور دیگر لوازمات زندگی میں مشغول رہتے ہیں ؟اس کے انسان کو دھوکا دینے کی کیا قدرت ہے؟کیا یہ اعضاے جسمانی میں سرایت کرجانے کی قدرت رکھتی ہے اور اس طرح انسان کے اعصاب ومحرکات پر قابو پالیتی ہے اور بالجبر اسے غلط راستے پر لگا دیتی ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دھوکا کیسے دیتی ہے۔
یا شیطان عربی زبان کی اصطلاح میں محض ایک لفظ ہے جو ہر اس فرد کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو تخریبی پہلو اختیار کرلے۔ یا یہ انسان کی اس اندرونی جبلت کا نام ہے جسے قرآن نفسِ اَمارہ یا نفسِ لوّامہ کے الفاظ سے تشبیہ دیتا ہے۔یعنی نفس جو غلط کاموں کی طرف اُکساتا ہے۔چوں کہ شیطان کا حربہ بڑا خطرناک ہوتا ہے اس لیے اس سے بچنے کی خاطر یہ سوال پوچھا جارہا ہے۔
میرے ایک لا مذہب عزیزکے خیال میں نظریۂ شیطان خدا کے واسطے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ خدا تو نیکی کی توفیق دیتا ہے اور شیطان برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ اور بظاہر توعام طور پر شیطان کی جیت ہوتی ہے۔ امید ہے کہ آپ کچھ وقت نکال کرمختصر جواب دیں گے۔
جب بھی کسی برائی کے سرز د ہوجانے کے بعد مجھے مطالعۂ باطن کا موقع ملا ہے،تو میں نے یوں محسوس کیا ہے کہ خارج سے کسی قوت نے مجھے غلط قدم اٹھانے پر آمادہ نہیں کیا بلکہ میری اپنی ذات ہی اس کی ذمہ دار ہے۔جب میری جبلی خواہش میرے فکر پر غالب آجاتی ہے اور میری روح پر نفسانیت کا قبضہ ہوجاتا ہے تو اس وقت میں گناہ کا ارتکاب کرتا ہوں ۔باہر سے کوئی طاقت میرے اندر حلول کرکے مجھے کسی غلط راہ پر نہیں لے جاتی۔ مگر جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ان فکری اور عملی گمراہیوں کا محرک شیطان ہے جو اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے۔یہ دشمن انسانیت کبھی خارج سے اور کبھی انسان کے اندر گھس کر اسے غلط راستوں پر لے جاتا ہے۔اس سلسلے میں دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ آپ بھی شیطان کو ایک مستقل وجود رکھنے والی ایسی ہستی تسلیم کرتے ہیں جو انسان کو بہکاتی اور پھسلاتی ہے۔
میں دعوت الی اﷲ اور اقامت دین اﷲ کے کام میں آپ کا ایک خیر خواہ ہوں ،اور مل کر کام کرنے کی ضرورت کا احساس رکھتا ہوں ۔ میں آپ کی طرف سے لوگوں کے اس اعتراض کی مدافعت کرتا رہتا ہوں کہ آپ تصوّف کو نہیں مانتے۔آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے میرے ایک سوال کا جواب یہ دیا تھا کہ میرے کام میں اہل تصوّف اور غیر اہل تصوّف سب کی شرکت کی ضرورت اور گنجائش ہے۔باقی میں جب صوفی نہیں ہوں تو مکار تو نہیں بن سکتا کہ خواہ مخواہ تصوّف کا دعویٰ کروں ۔آپ کا یہ جواب سیدھا سادا اور اچھا تھا، مگر قلم کی لغزش انسان سے ہوسکتی ہے۔ آپ اپنے رسالے ہدایات( ص ۳ا) میں لکھتے ہیں :
’’ذکر الٰہی جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے،اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیہ کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے۔‘‘
یہ چوٹ اگر آپ جمیع صوفیہ پر نہ کرتے تو آپ کی دعوت کو کیا نقصان پہنچتا؟اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو واقعی صوفیہ کا حا ل معلوم نہیں یا آپ صوفیہ سے نفرت ظاہر کرکے تحریک اسلامی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ اس لیے ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔امید ہے کہ آپ اپنی اس عبارت میں تبدیلی کردیں گے۔
آج سے ایک سال قبل دنیا کے جملہ افعال بد سے دوچار تھا،لیکن دنیا کی بہت سی آسانیاں مجھے حاصل تھیں ۔میں نہ کسی کا مقروض تھا اور نہ منت کش۔ اور اب جب کہ میں ان تمام افعال بد سے تائب ہوکر بھلائی کی طرف رجوع کرچکا ہوں ،دیکھتا ہوں کہ ساری فارغ البالی ختم ہوچکی ہے اور روٹی تک سے محروم ہوں ۔سوال یہ ہے کہ اچھے اور نیک کام کرنے والوں کے لیے دنیا تنگ کیوں ہوجاتی ہے،اور اگر ایسا ہے تو لوگ آخر بھلائی کی طرف کاہے کو آئیں گے؟یہ حالت اگر میرے لیے آزمائش ہے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے، تویہ منزل میں کس طرح پوری کروں گا؟
آپ نے تھوڑی سی بدگمانی سے کام لے کر یہ سمجھا کہ شاید میں اختلاف اور مخالفت میں فرق نہیں کرتا۔ الحمد ﷲ مولانا… نے ایسی تربیت دی کہ ہم دونوں میں فرق کریں ۔ اصلاح باطن کے بارے میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے،بعینہٖ یہی نصیحت ہم اپنے متعلقین کو کرتے ہیں ۔ ہم میں اور آپ میں شاید کوئی لفظی اختلاف ہورہا ہو۔مثلاً شوافع ] کذا! شافعیہ[ وحنابلہ سے ہم اختلاف کرتے ہیں مگر ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ امام شافعی ؒ کی راے غیر صحیح یا باطل ہے۔ مزید آپ فرماتے ہیں کہ وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیہ کے مختلف گروہوں نے ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے۔ میں ان کی کچھ مثالیں دریافت کرنا چاہتا ہوں ۔ نیز یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جو شخص صحیح کے خلاف طریقے پر ہے، اس کو آپ کیا فرمائیں گے؟ میں تو اس کے ساتھ صرف اختلاف نہیں بلکہ مخالفت بھی رکھتا ہوں ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ ایک شخص کو صحیح کے خلاف طریقے پر بھی سمجھیں اور پھر اس کے ساتھ مخالفت بھی نہ رکھیں ۔
جو طریقہ کتاب وسنت سے ہٹ کر نہ ہو،بلکہ اس کی روح اور مغز تک پہنچنے کے لیے ایجاد کیا گیاہو،اس کو غالباً آپ اپنے اصول کے مطابق اجتہاد فرمائیں گے (بدعت نہیں فرمائیں گے)۔ اسے قبول کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار حاصل ہے مگر اسے باطل یا غیر صحیح نہیں فرما سکتے۔اگر فرمائیں گے تو پھر اس سے نہ صرف اختلاف راے ہوگا بلکہ مخالفت ضروری ہوگی۔
ان امور کے بارے میں تصریح فرماویں تو بحث ختم ہوجائے گی۔