نور خان تعلیمی پالیسی کے نفاذ میں رکاوٹ
’’نور خاں تعلیمی پالیسی‘‘ کے نفاذ کی راہ میں کون سا ہاتھ رکاوٹ بنا؟
’’نور خاں تعلیمی پالیسی‘‘ کے نفاذ کی راہ میں کون سا ہاتھ رکاوٹ بنا؟
تعلیمی کانفرنس کی مجوزہ اسکیم (شائع شدہ ترجمان القرآن و کوثر) بہت اہم اور ضروری ہے لیکن مجھے اس کے متعلق کچھ شبہات ہیں ۔ میں صاف کہوں گا کہ اگر میرا بس چلے تو بقول برناڈشا ’’میں تمام دنیا کی یونی ورسٹیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں ۔‘‘ آپ خود سوچیں کہ آنحضرتﷺ نے کون سی یونی ورسٹی یا کالج بنایا تھا۔ مگر پھر بھی عظیم الشان ہمہ گیر انقلاب برپا کر دکھایا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ افیون کی اس گولی سے کام کی رفتار بہت سست ہو جائے گی اور جماعت اسلامی کا ادارہ ایک انقلابی اسلامی ادارہ کے بجائے زیادہ سے زیادہ ایک تجارتی ادارہ بن کے رہ جائے گا۔ کیا دیوبند اور جامعہ ملیہ اور اسی طرز کی دوسری درسگاہیں انقلابی تحریکات کا مرکز بن سکتی ہیں ؟ وہاں یقیناً درس و تدریس بھی ہے اور قال اللہ اور قال الرسول کا غلغلہ بھی۔ لیکن کیا صحیح معنوں میں رسول اللہﷺ کے اصل مشن کے لیے کوئی کام ہو رہا ہے؟ اس لیے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔
آپ کے خیال میں گزشتہ 27 برس میں پاکستان اسلامی نظام تعلیم کے قریب آیا یا دور ہٹا؟
اسلامی نظام تعلیم کی طرف بڑھنے کی کوششوں کے راستے میں کون سی طاقتیں مزاحمت کر رہی ہیں ۔
جواب: اسلامی نظام تعلیم کی طرف پیش قدمی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ حکومت ہی ہے جو ایسے نظام سے واقف بھی نہیں اور خائف و گریزاں بھی ہے۔ (ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)
جن ملکوں میں صنعتی ترقی ہوئی،وہاں لازمی طور پر عام اخلاقی تنزل ہوا۔ ملوں ، کارخانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے عورت، مرد، بچے تک مشینوں کے پرزے بن گئے۔ ان ملکوں میں نتیجے کے طور پر کچھ مفکر پیدا ہوئے(مثلاً امریکا میں جان ڈیوی) جنھوں نے نئی طرز کی زندگی کو نظریاتی سہارا دیا،روایات کو غلط قرار دیا اور سوسائٹی کی اقدار ہی کو بدل دیا۔ پاکستان میں ایک طرف تو صنعتی ترقی ضروری ہے ۔دوسری طرف اسلامی روایات اور اقدار کو قائم رکھنا فرض ہے۔ براہِ کرم فرمایے کہ یہ بظاہر متضاد مقاصد کیسے حاصل ہوسکتے ہیں ؟مشینی فضا میں روح کیسے تازہ رہ سکتی ہے؟ تبدیلیاں لازمی ہیں مگر کس حد تک قابل قبول ہیں ؟
بندہ درس و تدریس کے کام سے ایک عرصے سے وابستہ ہے اور آج کل یہا ں زیرتعلیم ہے۔یہاں ماہرین تعلیم سے اکثر تعلیمی موضوعات پر بحث رہتی ہے۔چنانچہ شکاگو یونی ورسٹی کی فرمائش پر بندہ ایک مقالہ قلم بند کرنے کی کوشش کررہا ہے،جس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان کی تعلیمی ضروریات امریکا اور دیگر ممالک کی ضروریات سے بہت مختلف ہیں ۔ پاکستانی ضروریات کا حل اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہونا چاہیے۔اگر امریکن طرز تعلیم بغیر سوچے اختیار کیا گیا تو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔
جناب کی بیش تر تصنیفات میر ی نظر سے گزر چکی ہیں اور اب راہ نمائی کر رہی ہیں ۔ ایک دو سوال کچھ اس پیچیدہ نوعیت کے درپیش ہوئے کہ میں نے ضروری سمجھا کہ جناب سے براہِ راست راہ نمائی حاصل کی جائے۔اُمید ہے کہ آپ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود کچھ وقت نکا ل سکیں گے۔ گزارش ہے کہ:
اسلامی تعلیم کس قسم کی ہو؟ کیا سب کے لیے ہو؟ فری ہو یا نہ ہو ؟وہ نمونے کی شخصیت جو اسکول کو پیداکرنی چاہیے اس کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں ؟کیا ہمارے دینی مدارس ایسی شخصیتیں پیدا کررہے ہیں ؟
آپ کی نگاہ میں پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟
اسلامی نظام تعلیم سے کیا مراد ہے؟
آپ کے نزدیک اسلامی نظام تعلیم کو عملاً بروے کار لانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں ؟ تعلیمی، تہذیبی، ملی اور جغرافیائی زندگی پر اس نظریے کے کیا اثرات مرتب ہونے چاہییں ؟