کیا ایک قربانی گھر کے تمام افراد کے لیے کافی ہے؟

اگر ایک گھر میں کئی صاحب ِ نصاب افراد ہوں ، مثلاً شوہر بھی صاحب نصاب ہو، بیوی کے پاس اتنے زیورات ہوں جو نصاب تک پہنچتے ہیں ، ان کے بیٹے بھی ملازمت یا تجارت کی وجہ سے اتنا کما رہے ہوں کہ وہ صاحب نصاب ہوں ، اگرچہ ان کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو اور وہ والدین کے ساتھ رہتے ہوں ۔ تو کیا ان میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہے یا گھر میں صرف ایک قربانی کافی ہے؟

گائے کا گوشت کھانے کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر

ہمارے یہاں ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے ، جس میں ایک مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کاگوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ممانعت کی یہ حدیث کئی کتابوں میں درج ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گائے عرب میں نہیں پائی جاتی تھی ، اس لیے اللہ کے رسول ؐ اورصحابۂ کرام نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا ۔ مولانا صاحب یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں گائے کھانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اوراسے لازم نہیں قرار دیا گیا ہے ، اس صورتِ حال میں جب کہ کسی قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہوں ، گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانو ں کا اصرار کرنا درست نہیں ہے۔
براہِ کرم اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں اوربتائیں کہ کیا واقعی احادیث میں گائے کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے ؟

گائے کا گوشت کھانے کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر

ہمارے یہاں ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے ، جس میں ایک مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کاگوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ممانعت کی یہ حدیث کئی کتابوں میں درج ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گائے عرب میں نہیں پائی جاتی تھی ، اس لیے اللہ کے رسول ؐ اورصحابۂ کرام نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا ۔ مولانا صاحب یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں گائے کھانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اوراسے لازم نہیں قرار دیا گیا ہے ، اس صورتِ حال میں جب کہ کسی قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہوں ، گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانو ں کا اصرار کرنا درست نہیں ہے۔

مرض سے شفایابی پرقربانی

ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’عام حالات میں حلال جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھایا جاسکتا ہے اور بہ طورصدقہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے ‘‘ پھر اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ ’’ کسی مناسبت سے، مثلاً مرض سے شفایابی پرجانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کیاجاسکتا ہے۔‘‘ یہ بات صحیح نہیں  معلوم ہوتی ۔
جانور ذبح کرکے اسے کھانے یا ذبح شدہ جانور کے گوشت کوبہ طور صدقہ تقسیم کرنے میں کوئی کلام نہیں ، البتہ سوال یہ ہے کہ کسی مناسبت سے جانور کوبہ طور تقرب یابہ غرض ثواب ذبح کرنا درست ہے یا نہیں ؟ جیسا کہ یہ عام رواج بنتاجا رہاہے کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ گیا تو اس کے بعد قربت کی نیت سے وہ جانور ذبح کرتا ہے اورخون بہانے کو کارثواب سمجھتا ہے اوراسے جان کی حفاظت کا بدلہ قراردیتا ہے۔
جہاں  تک مجھے معلوم ہے کہ بہ غرضِ ثواب جانور ذبح کرنا صرف دو موقعوں پر ثابت ہے: ایک عید قرباں میں ، دوسرے عقیقہ میں ۔ الّا یہ کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح کوئی شخص جانور ذبح کرنے کی نذرمان لے تو بہ حیثیت نذر درست ہے، کیوں کہ کسی بھی عمل صالح کوبہ شکل نذر اپنے ذمے لازم کرنا اور اسے ادا کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور موقع پربہ طور تقرب جانور ذبح کرنا ثابت نہیں  ہے اور تعبّدی امور میں قیا س درست نہیں ۔

جبری امتناع کی صورت میں مباحات(گائے کی قربانی ) کا وجوب

ہمارے مقامی خطیب صاحب نے ایک وعظ میں یہ فرمایا ہے کہ اگر کسی ملک میں جبراً گائو کشی بند کردی جائے تو اس صورت میں ملک کے مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس حکم امتناعی کی خلاف ورزی کریں ۔یہ فتویٰ مجھے کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔آخر شریعت نے جن چیزوں کو حلال ٹھیرایا ہے ،وہ بس حلال ہی تو ہیں ،واجب کیسے ہوگئیں ؟مثلاًاونٹ کا گوشت کھانا حلال ہے،لیکن اگر کوئی نہ کھائے تو گناہ گار نہیں ہے۔ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ حلت کے معنی وجوب کے نہیں ہیں ۔پھر یہ مولوی صاحب فرضیت کا فتویٰ کہاں سے دیتے ہیں ؟آپ فرمایئے کہ مذکورہ بالا فتویٰ کی حیثیت کیا ہے؟

ہندستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ

مسلمان قوم اگر ہندستان میں گائے کی قربانی کو روک دے تو اسلام کی نگاہ میں کوئی قیامت نہیں آجاتی، خصوصاً جب کہ اس فعل میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔پھرکیوں نہ ایک ہمسایہ قوم کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے رعایت سے کام لیا جائے؟اکبراعظم، جہانگیر،شاہجہاں اورموجودہ نظام حیدر آباد نے عملی مثالیں اس سلسلے میں قائم کی ہیں ۔

قربانی کی اہمیت

ہمارے ایک رکن جماعت نے (جو حج کی سعادت حاصل کرچکے ہیں ) ایک اجتماع میں کہا کہ محترم مولانا نے تفہیم میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص موسم حج میں حج سے پہلے عمرہ کرے تو وہ قربانی دے۔ لیکن مکہ مکرمہ میں عمرے کے بعد کوئی قربانی نہیں دی جاتی۔ اس میں انھوں نے تفہیم القرآن جلد اول، سورئہ البقرہ، آیت۱۹۶ کے ترجمے کا حوالہ دیا ہے جو درج ذیل ہے:
’’…تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسب مقدور قربانی دے…‘‘ میں نے انھیں سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی کہ یہ تو آیت کا ترجمہ ہے اور اس کا مفہوم یہ نہیں کہ عمرے کے فوراً بعد ہی قربانی دی جائے، بلکہ مراد یہ ہے کہ تمتُّع اورقِران میں قربانی واجب ہے۔ حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھانے کے بارے میں جو وضاحت آپ نے حاشیہ۲۱۳ کے آخر میں فرمائی ہے اس کی طرف بھی ان کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ لیکن ان کا اصرار ہے کہ بیان واضح نہیں ۔ بہرحال اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس مسئلے کی مزید وضاحت فرمائیں تاکہ غلط فہمی کا امکان نہ رہے۔

حج میں قربانی کرنے کا مسئلہ

میرے ایک عزیز جو اب لامذہب ہوچکے ہیں ، قربانی کو لغو قرار دیتے ہیں ۔وہ اپنے اس نظریے کی تبلیغ بھی کرتے ہیں ۔ میں ان کے مقابلے میں اسلامی احکام وتعلیمات کے دفاع کی کوشش کرتا ہوں ۔میری راہ نمائی اور مدد کیجیے۔