رسول اللّٰہﷺ کی صاحب زادیوں کی عمریں

تفہیم القرآن جلد ششم سورۃ الکوثر کے دیباچے میں صفحہ ۴۹۰پر ابن سعد اور ابن عساکر کے حوالے سے آپ نے حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ کی یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے سب سے بڑے صاحب زادے حضرت قاسم تھے، ان سے چھوٹی حضرت زینبؓ تھیں ، ان سے چھوٹے حضرت عبداللّٰہؓ تھے پھر علی الترتیب تین صاحب زادیاں ام کلثومؓ، فاطمہؓ اور رقیہؓ تھیں ۔ ان میں سے پہلے حضرت قاسمؓ کا انتقال ہوا، پھر حضرت عبداللّٰہؓ نے وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا ’’ان کی نسل ختم ہوگئی، اب وہ اَبْتَرْ ہیں ‘‘ (یعنی ان کی جڑ کٹ گئی)۔ ({ FR 2202 })
اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت رقیہؓ سب سے چھوٹی صاحب زادی تھیں ۔ لیکن مشہور تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ سب سے چھوٹی تھیں ۔ نیز اس روایت کے مطابق حضرت عبداللّٰہ آل نبیؐ میں تیسرے نمبر پر تھے لیکن صاحب رحمۃ للعالمین نے تحریر کیا ہے کہ حضرت عبداللّٰہؓ بعثت نبوت کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے حضرت ابن عباسؓ سے منقول آل نبی کی ترتیب محل نظر ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔
حضرت قاسم بعثتِ نبوت سے قبل پیدا ہوئے اور قبل ہی فوت ہوگئے۔ ان کے اسم گرامی کے ساتھ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تحریر کرنے سے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟

عِصمت ِانبیا؊

یہ امر مسلّم ہے کہ نبی معصوم ہوتے ہیں ،مگر آدم ؈ کے متعلق قرآن کے الفاظ صریحاً ثابت کررہے ہیں کہ آپ نے گناہ کیا اور حکم عدولی کی۔جیسے:
وَ لاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) البقرہ:۳۵ )
’’مگر اس درخت کارُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘
کی آیت ظاہر کررہی ہے۔اس سلسلے میں اپنی تحقیق کے نتائج سے مستفید فرمائیں ۔

رسول کا علمِ غیب

ایک عالمِ دین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’رسول کو عالمِ غیب سے وہی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کو اﷲ ان کے توسط سے اپنے بندوں کے پاس بھیجنا چاہتا ہے۔‘‘ استدلال میں یہ آیت پیش کی ہے:
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًاo اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاo لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (الجن ۲۶ -۲۸)
’’وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سواے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لیے) پسند کر لیا ہو،تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔‘‘
یعنی ’’وہ غیب کاعالم ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سواے اس رسول کے جس کو اُ س نے چن لیاہو، پھر وہ اس کے آگے اور پیچھے نگراں لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ رسولوں نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیے۔‘‘
مصنف کی اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کوغیب کا صرف اتنا ہی علم دیا جاتا ہے جتنا بندوں کو پہنچانامطلوب ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ انھیں کوئی چیزنہ بتائی جاتی تھی۔کیا یہ بات درست ہے؟ اور کیا وہ آیت جس سے مصنف نے استدلال کیا ہے،اس معاملے میں فیصلہ کن ہے؟