اردو خطبہ منبر سے دیا جائے یا نیچے سے؟
ہمارے محلے میں خطبۂ جمعہ کے حوالے سے تحت المنبر اور فوق المنبر کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا ہے۔ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ صحیح طریقہ کیا ہے؟
ہمارے محلے میں خطبۂ جمعہ کے حوالے سے تحت المنبر اور فوق المنبر کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا ہے۔ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ صحیح طریقہ کیا ہے؟
بہ راہِ کرم درج ذیل سوالات کی وضاحت فرمادیں :
(۱) نماز جمعہ میں کل کتنی رکعتیں ہیں ؟ کہا جاتا ہے کہ اس میں فرض اور سنن و نوافل کل ملا کر چودہ رکعتیں ہیں ؟ یہ محض رواج ہے یا اس کے پیچھے کوئی سند اور دلیل ہے؟ فقہ السنۃ شائع شدہ از مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی میں لکھا ہے کہ جمعہ میں فرض سے پہلے سنتیں اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ، جب کہ فتاویٰ عالم گیری میں فرض سے قبل کی سنتوں کا ذکر ہے۔
(۲) کیا تین ہزار کی آبادی والے گاؤں میں تین مسجدوں میں نماز جمعہ بلا کراہت جائز ہے، جب کہ تینوں مسجدوں کا باہم فاصلہ سو، ڈیڑھ سو میٹر ہی کا ہو، اور ایک ہی مسجد میں اتنی جگہ ہو کہ پوری آبادی اس میں نماز پڑھ سکتی ہو؟
(۳) نماز کے بعد امام صاحب وظیفہ کا اہتمام کرتے ہیں اور مقتدی دعا کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ، پھر اجتماعی طور پر دعا مانگی جاتی ہے، جب کہ قرآن میں نماز جمعہ ختم ہونے پر زمین میں پھیل کر اللہ کا فضل تلاش کرنے کی ہدایت موجود ہے۔ بہ راہِ کرم اجتماعی دعا کے جواز اور مواقع سے آگاہ فرمائیں ۔
یہاں ہمارے علاقے میں عیدالفطر کی نماز میں خواتین کی شرکت باعث ِ نزاع بن گئی ہے۔ چوں کہ نماز عید کے موقع پر کافی تعداد میں خواتین عیدگاہ میں نماز کے لیے آئی تھیں ، مگر یہاں کے ایک مولانا صاحب نے اس پر سخت تنقید کی۔ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں رہا، بلکہ سنا گیا کہ انھوں نے گھر گھر جاکر خواتین کو توبہ کرنے کو کہا، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کا نماز عید میں شریک ہونا جائز نہیں ۔ اس طرح خواتین کو آئندہ عیدگاہ جانے کی اجازت نہ ملنے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف کچھ علماء نماز عید میں خواتین کی شرکت کو جائز ہی نہیں ، بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں ۔
براہِ مہربانی اس معاملے میں رہ نمائی فرمائیں ، تاکہ آیندہ صحیح فیصلہ کیا جاسکے اور نزاع سے بھی بچا جاسکے۔
عید الاضحی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کی یادگار ہے، جو نصیحت کے لیے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عید میں خوشی کا کون سا پہلو ہے؟
ہمارے یہاں ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے ، جس میں ایک مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کاگوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ممانعت کی یہ حدیث کئی کتابوں میں درج ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گائے عرب میں نہیں پائی جاتی تھی ، اس لیے اللہ کے رسول ؐ اورصحابۂ کرام نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا ۔ مولانا صاحب یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں گائے کھانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اوراسے لازم نہیں قرار دیا گیا ہے ، اس صورتِ حال میں جب کہ کسی قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہوں ، گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانو ں کا اصرار کرنا درست نہیں ہے۔
ہمارے یہاں ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے ، جس میں ایک مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کاگوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ممانعت کی یہ حدیث کئی کتابوں میں درج ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گائے عرب میں نہیں پائی جاتی تھی ، اس لیے اللہ کے رسول ؐ اورصحابۂ کرام نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا ۔ مولانا صاحب یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں گائے کھانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اوراسے لازم نہیں قرار دیا گیا ہے ، اس صورتِ حال میں جب کہ کسی قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہوں ، گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانو ں کا اصرار کرنا درست نہیں ہے۔
براہِ کرم اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں اوربتائیں کہ کیا واقعی احادیث میں گائے کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے ؟
ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ عورتوں میں حیض کی ابتدا بنی اسرائیل سے ہوئی۔ ان سے قبل عورتوں کو حیض نہیں آتا تھا۔ ان کی عورتوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کو یہ سزا دی گئی ۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا یہ بات صحیح ہے؟ مجھے تو اس کے بجائے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کو روز اول سے حیض آتا رہاہے۔
میں ایک مسلم ادارہ میں کام کرتا ہوں ، جہاں پر مسلم وغیر مسلم اساتذہ کام کرتے ہیں ۔ غیر مسلم اساتذہ کھڑے ہوکر پیشاب کرتےہیں ۔ انتظامیہ کے کچھ ممبران نے سوچا کہ غیر مسلم اساتذہ کے لیے ایسا بیسن لگادیا جائے جس میں کھڑے ہوکر پیشاب کیا جاتا ہے ۔ مسلم اساتذہ نے اس پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے پہلا خدشہ یہ ہے کہ خود مسلم بچے آج نہیں تو کل کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے عادی ہوجائیں گے ، دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنی اسلامی تہذیب وآداب کا ہر موقع پر خیال رکھنا چاہیے ۔ اس طرح کے ماحول میں ہمارا کیا رویہ ہونا چاہیے ؟ براہِ کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں ۔
میرے چچا بہت بیمار تھے۔ انھوں نے صدقہ کے طورپر بکراذبح کرنا چاہا ، لیکن لوگوں نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ جان کے بدلے جان نہیں لینا چاہیے۔ اگر آپ بیماری کی وجہ سے صدقہ کرنا چاہتے ہیں تو مال صدقہ کردیں ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ جان کے بدلے جان لینے کا تصور ہندومذہب میں پایا جاتا ہے ، اسلام میں یہ چیز جائز نہیں ہے۔ اس بنا پر یہ معاملہ الجھ گیا ہے اورہمارے خاندان کے لوگ کنفیوژن کاشکارہوگئے ہیں ۔
بہ راہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔ کیا مذکورہ صورت میں صدقہ کے طورپر جانور ذبح کرنا شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے؟
ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’عام حالات میں حلال جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھایا جاسکتا ہے اور بہ طورصدقہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے ‘‘ پھر اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ ’’ کسی مناسبت سے، مثلاً مرض سے شفایابی پرجانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کیاجاسکتا ہے۔‘‘ یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی ۔
جانور ذبح کرکے اسے کھانے یا ذبح شدہ جانور کے گوشت کوبہ طور صدقہ تقسیم کرنے میں کوئی کلام نہیں ، البتہ سوال یہ ہے کہ کسی مناسبت سے جانور کوبہ طور تقرب یابہ غرض ثواب ذبح کرنا درست ہے یا نہیں ؟ جیسا کہ یہ عام رواج بنتاجا رہاہے کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ گیا تو اس کے بعد قربت کی نیت سے وہ جانور ذبح کرتا ہے اورخون بہانے کو کارثواب سمجھتا ہے اوراسے جان کی حفاظت کا بدلہ قراردیتا ہے۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ بہ غرضِ ثواب جانور ذبح کرنا صرف دو موقعوں پر ثابت ہے: ایک عید قرباں میں ، دوسرے عقیقہ میں ۔ الّا یہ کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح کوئی شخص جانور ذبح کرنے کی نذرمان لے تو بہ حیثیت نذر درست ہے، کیوں کہ کسی بھی عمل صالح کوبہ شکل نذر اپنے ذمے لازم کرنا اور اسے ادا کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور موقع پربہ طور تقرب جانور ذبح کرنا ثابت نہیں ہے اور تعبّدی امور میں قیا س درست نہیں ۔