مساجد میں خواتین کی حاضری
رسو ل اللہ ﷺنے خواتین کو مسجد میں جانے کی اجازت دی تھی تو حضرت عمرؓ اسے ناپسند کیوں کرتے تھے؟ اور اپنی اہلیہ کو کیوں روکنے کی کوشش کرتے تھے؟
رسو ل اللہ ﷺنے خواتین کو مسجد میں جانے کی اجازت دی تھی تو حضرت عمرؓ اسے ناپسند کیوں کرتے تھے؟ اور اپنی اہلیہ کو کیوں روکنے کی کوشش کرتے تھے؟
بچہ دودھ پی رہا ہو ، ابھی اس نے روٹی کھانی شروع نہ کی ہو ۔ کیا اس کے پیشاب کردینے سے اگرکسی کے کپڑے خراب ہوجائیں تووہ ان میں نماز پڑھ سکتا ہے ؟ بہ الفاظ دیگرکیا چھوٹے بچے کا پیشاب پاک ہے ؟
حیض( ماہ واری ) کی حالت میں کیا عورت قرآن پڑھ سکتی ہے ؟ یاوہ درسِ قرآن کی تیاری کرسکتی ہے ؟
استخارہ کرنے پر جو خواب نظر آئے اس کی تعبیر کیسے کی جائے؟ کیا کسی ایسے شخص سےجو خواب کی تعبیر جانتا ہو ، پوچھنا جائز ہے؟
کیاعید کی نماز خواتین کے لیے عیدگاہ یا مسجدمیں جا کر پڑھنا ضروری ہے ؟
اہ رمضان المبارک کو تین عشروں میں تقسیم کیاجاتا ہے۔پہلے عشرہ کو عشرۂ رحمت، دوسرے کو عشرۂ مغفرت اور تیسرے کو عشرۂ نجات کہاجاتا ہے۔ ہر عشرہ کے اعتبار سے الگ الگ دعائیں بھی تجویز کی گئی ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ یہ تقسیم ایک حدیث پرمبنی ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا یہ تقسیم درست ہے؟ وہ حدیث کس پایہ کی ہے؟ یہ بھی بتادیں ۔
کیا عورت قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرسکتی ہے؟
مقیم شخص کے لیے حج تمتع‘ کے عنوان سے مذکورہ بالا جواب پر اشکال کرتے ہوئے ایک صاحب نے لکھا ہے:
’’سورہ البقرۃکی آیت ۱۹۶ میں میقات سے باہر رہنے والوں کو عمرہ اورحج ایک ہی سفر میں کرنے کی اجازت ہے ۔ یہ اجازت ان کے لیے نہیں ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب ہوتےہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسجد حرام کے قریب رہنے والے حج کے موسم یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی ۱۲،۱۳ تاریخ تک عمرہ نہیں کرسکتےاورنہیں کرنا چاہیے۔جوکوئی قریب رہنے والا موسم حج میں نیکی سمجھ کر عمرہ کرے گا غلطی کرے گا، اسی لیے آخر میں ہے : وَاتَّقُواللہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللہَ شَدِیْدُالْعِقَابِ’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سخت سز ا دینے والا ہے ‘‘۔ اگر یہ بات نہ ہوتو حج وعمرہ کے ذیل میں ’ شدیدالعقاب‘ پرآیت ختم ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔
مقامی لوگ حج ختم ہونے کے بعدآخر رمضان تک جب چاہیں عمرہ کرسکتے ہیں ، لیکن جیسے ہی شوال شروع ہو وہ عمرہ نہیں کرسکتے، وہ صرف باہر کے افراد ہی کریں گے۔
اگر کوئی مقامی فرد ایام حج میں عمرہ کرے تو اس نے غلطی کی ،چاہے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اگروہ حج کرے گا تو دم دینے والی رائے زیادہ قوی لگتی ہے ۔ یہ دم جنایت ہوگا، جب کہ باہر سے آنے والے عمرہ اورحج کرنے پر جوقربانی کرتے ہیں وہ دم شکر گردانا جائےگا۔
میقات سے باہر رہنے والا چاہے تو قِران کرے یا تمتع یا افراد حج ، لیکن میقات کےاندر رہنےوالا صرف حج افراد ہی کرسکتا ہے۔‘‘
مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب’خطبات‘ کے مضمون ’حج کے فائدے‘ میں مناسکِ حج کی تربیت بیان کی ہے۔انھوں نے لکھاہے
’’دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے ۔(وہاں بڑے جمرہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں ) پھر اسی جگہ قربانی کی جاتی ہے۔پھر وہاں سے کعبہ کارخ کیاجاتا ہے۔ طواف اور دورکعتوں سے فارغ ہوکر احرام کھل جاتاہے۔ جو کچھ حرام کیا گیا تھا وہ اب پھر حلال ہوجاتاہے اور اب حاجی کی زندگی پھر معمولی طورپر شروع ہوجاتی ہے۔‘‘(ص۲۵۱)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ حاجی منیٰ میں قربانی کرنے کے بعد احرام نہیں کھولے گا، بلکہ قربانی کے بعد حرم جاکر طواف کرے گا اور دورکعت نماز ادا کرے گا، اس کے بعد احرام کھولے گا، جب کہ ہمیں حج کے لیے جاتے وقت بتایا گیا تھا کہ قربانی کے بعد منیٰ ہی میں احرام کھول دینا ہے۔ چنانچہ سب کے ساتھ میں نے بھی ایسا ہی کیاتھا۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کون ساعمل صحیح ہے؟قربانی کے بعد منیٰ ہی میں احرام کھول دینا ،یا طواف کرنے اور دورکعت نماز پڑھنے کے بعد احرام کھولنا؟
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’خطبات ‘ میں لکھا ہے:
’’ دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے اور وہاں اس ستون پر کنکریوں سے چاند ماری کی جاتی ہے جہاں تک اصحاب فیل کی فوجیں کعبہ ڈھانے کے لیے پہنچ گئی تھیں ۔‘‘(ص۲۵۱)
آگے مزید لکھا ہے:
’’دوسرے دن (حاجی) پتھر کے ان تین ستونوں پر باری باری کنکریوں سے ، پھر چاند ماری کرتا ہے جن کوجمرات کہتے ہیں اورجودر اصل اس ہاتھی والی فوج کی پسپائی اورتباہی کی یادگار میں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال عین حج کے مواقع پر اللہ کے گھر کو ڈھانے آئی تھی اور جسے اللہ کے حکم سے آسمانی چڑیوں نے کنکریاں مار مار کرتباہ کردیا تھا‘‘۔(ص۲۵۱،۲۵۲)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج میں رمی جمرات یعنی کنکریاں مارنا ہاتھی والی فوج کی پسپائی کی یادگار ہے ، جب کہ عام طور پر کنکریاں مارنے کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی سنت بتایا جاتا ہے۔