زیورات پر زکوٰۃ

میرا تعلق درمیانی طبقہ سے ہے۔ میری شادی کو ایک سال سے کچھ زائد ہوچکا ہے۔ مجھے اپنی شادی میں اتنے زیورات ملے تھے، جن پر زکوٰۃ نکالنا فرض ہوجاتا ہے۔ زیورات پر زکوٰۃ کے سلسلے میں جب میں نے اپنے شوہر محترم سے رجوع کیا تو انھوں نے مجھے ایک عجیب سی الجھن میں ڈال دیا۔ کہنے لگے کہ زیورات آپ کی ملکیت ہیں ۔ ان کی زکوٰۃ آپ ہی کو نکالنی ہے۔ انھوں نے مہر کی رقم ادا کردی تھی۔ میں نے اس رقم کو بھی زیورات میں تبدیل کرلیا تھا۔ سسرال میں میرے پاس اپنی کوئی جائیداد تو ہے نہیں ۔ میری ساری جمع پونجی یہی زیورات ہیں ۔ ان کی زکوٰۃ کس طرح نکالوں ، یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ زکوٰۃ کے لیے درکار پیسے کہاں سے لاؤں ؟ والدین کی طرف بھی رجوع نہیں کرسکتی، کیوں کہ وہ اپنی ضرورتیں بھی بڑی مشکل سے پوری کر پاتے ہیں ۔
یہ اکیلے میرا مسئلہ نہیں ہے۔ درمیانی طبقے کی ہماری زیادہ تر بہنوں کے پاس اپنے زیورات کے علاوہ اور کوئی جائداد تو ہوتی نہیں ہے۔ ہم اپنے زیورات بیچ کر ہی ان کی زکوٰۃ ادا کرسکتی ہیں ۔ اس طرح چند سالوں میں ان کی مالیت اتنی کم ہوجائے گی کہ زیورات کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ درمیانی طبقے کی خواتین کے لیے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ زکوٰۃ نہ نکالنے پر احساسِ گناہ کے ساتھ زیورات کو زیب تن کرنا ان کا مقدّر بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں دو سوالات جواب طلب ہیں :
(۱) کیا بیوی کی ملکیت والے زیورات کی زکوٰۃ نکالنا شوہر پر فرض نہیں ہے؟
(۲) اگر شوہر سے الگ بیوی کے پاس اپنی جداگانہ ملکیت ہو تو کیا اسلام میں اسے اپنی جائداد کے انتظام کی وہی آزادی حاصل ہے، جو شوہر کو اپنی جائداد کے لیے حاصل ہے؟

چاند دیکھ کر افطار کرنا

ایک صاحب نے چاند دیکھ کر افطار کیا، حالاں کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا، بلکہ عصر ہی کا وقت تھا۔ اگر چاند دیکھ کر روزہ رکھنا ہے اور چاند دیکھ کر افطار کرنا ہے تو پھر قرآن کی اس آیت کا حق کہاں ادا ہوا کہ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ (اپنا روزہ رات تک پورا کرو)۔ جہاں تک روزہ رکھنے کا سوال ہے وہ ماہ رمضان کا چاند نظر آنے پر ہی رکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو شوال کا چاند سورج غروب ہونے سے پہلے یا عصر کے وقت ہی دکھائی دے تو کیا اسی وقت افطار کرنا چاہیے، یا پھر معمول کی طرح سورج غروب ہونے کے بعد افطار کرنا چاہیے؟ بہ راہ کرم اس سلسلے میں مکمل رہ نمائی فرمائیں ۔

مساجد میں خواتین کی حاضری

رسول اللہﷺ کے دور میں خواتین مسجد جایا کرتی تھیں ، لیکن ہمارے علماء مساجد میں خواتین کی آمد کو فساد کا سبب قرار دیتے ہیں اور اس کا فقہی حوالہ بھی دیتے ہیں ۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ خواتین اس وعظ و نصیحت سے محروم رہتی ہیں جس کا مساجد میں اہتمام ہوتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بازار میں خواتین کی آمد و رفت رہتی ہے اور وہ بے تکلف گھومتی پھرتی ہیں ۔ اس کی مخالفت نہیں کی جاتی، مساجد میں جانے سے انھیں باز رکھا جاتا ہے۔ اس معاملہ میں صحیح رویہ کی وضاحت فرمائیں ؟

مسجد میں عورت کی نماز باجماعت میں شرکت

(۱) خواتین کا مسجد میں آکر باجماعت نماز ادا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟
(۲) دیگر مسلم ممالک میں (جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں ) خواتین مسجد میں نماز ادا کرتی ہیں تو ہندستان میں اس پر واویلا کیوں ہے؟
(۳) اسلام میں بہت سے کاموں کی اجازت ناپسندیدگی یا سخت شرائط کے ساتھ دی گئی ہے (تین طلاق اور ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی وغیرہ) لیکن انھیں آج بھی ناجائز یا حرام قرار نہیں دیا جاتا تو پھر خواتین کے مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کو پردہ کی شرائط کی پابندی کی تلقین کے بجائے ناجائز کہنا کیوں کر درست ہے؟
(۴) خواتین کے مسجد میں نماز پڑھنے کی پابندی کو حضرت عمرؓ سے منسوب کیا جا رہا ہے، جب کہ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے یہ واقعہ بھی منقول ہے کہ حضرت عمرؓ کے بیٹے حضرت بلالؓ نے جب یہ کہا تھا کہ ’’اللہ کی قسم ہم اپنی عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے‘‘ تو یہ سن کر حضرت عمرؓ حضرت بلالؓ پر بہت ناراض ہوئے تھے اور کہا تھا کہ میں تو رسول اللہﷺ کا فرمان بیان کرتاہوں کہ ’’انھیں اجازت دو‘‘ اور تو کہتا ہے کہ ہم اجازت نہیں دیں گے‘‘ اس واقعے کی روشنی میں عورتوں کے مسجد میں نماز کے لیے آنے پر پابندی کی وضاحت فرمائیں ۔
(۵) عیدین اور جمعہ کی نمازیں جو کہ جماعت کے بغیر ادا نہیں ہوتیں ، کیا خواتین کو ان سے مستثنیٰ رکھنے کا کوئی حکم قرآن و حدیث میں کہیں موجود ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر وضاحت فرمائیں کہ وہ مسجد میں آکر جماعت میں شریک ہوئے بغیر یہ نمازیں کس طرح ادا کرسکتی ہیں ؟ اگر پردہ اور الگ صفوں کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان نمازوں کو ادا کرنے سے محروم رہتی ہیں تو کیا اس کا گناہ مردوں کے سر نہیں ہے، جو ان نمازوں کے لیے خواتین کے مسجد میں آنے کا معقول انتظام کرنے کے بجائے ان کا مسجد میں آنا ہی ممنوع قرار دیتے ہیں ؟

محرم کے بغیر سفرِ حج

میں ایک تحریکی بہن ہوں ، میری عمر ۳۹ سال ہے۔ جماعتِ اسلامی سے الحمدللہ پانچ سال سے وابستہ ہوں ۔ اس سال حج کو جانے کا ارادہ ہے۔ لیکن محرم کا مسئلہ ہے۔ پچھلے سال چھوٹے بھائی یہ فریضہ ادا کرچکے ہیں ۔ دیگر دو بھائی ہیں جو فی الحال صاحبِ استطاعت نہیں ہیں ۔ اس سال میرے بھائی کے برادر نسبتی، ان کی اہلیہ اور بھائی کی ساس، جو عمر رسیدہ ہیں ، حج کو جا رہے ہیں ۔ انھیں کے ساتھ میں نے بھی حج کا ارادہ کیا ہے۔ اور الحمد للہ حج کے لیے جو اخراجات درکار ہیں وہ بھی موجود ہیں ۔ بھائی صاحب نے مقامی مفتی سے جو فقہِ حنفی کے پیرو کار ہیں ، مسئلہ دریافت کیا تو مفتی صاحب نے یہ فتویٰ دیا کہ بغیر محرم کے عورت سے حج ساقط ہوجاتا ہے۔ مفتی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ عورت اگر بغیر محرم کے حج کو جائے تو حج ہوجائے گا لیکن وہ گناہ گار ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ دوسرے فقہاء کے یہاں کوئی گنجائش ہے؟ براہِ کرم آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں ، اللہ آپ کو اجرِ جزیل سے نوازے۔

صوفیہ کے بعض طریقے ،شریعت کی روشنی میں

میں دعوت الی اﷲ اور اقامت دین اﷲ کے کام میں آپ کا ایک خیر خواہ ہوں ،اور مل کر کام کرنے کی ضرورت کا احساس رکھتا ہوں ۔ میں آپ کی طرف سے لوگوں کے اس اعتراض کی مدافعت کرتا رہتا ہوں کہ آپ تصوّف کو نہیں مانتے۔آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے میرے ایک سوال کا جواب یہ دیا تھا کہ میرے کام میں اہل تصوّف اور غیر اہل تصوّف سب کی شرکت کی ضرورت اور گنجائش ہے۔باقی میں جب صوفی نہیں ہوں تو مکار تو نہیں بن سکتا کہ خواہ مخواہ تصوّف کا دعویٰ کروں ۔آپ کا یہ جواب سیدھا سادا اور اچھا تھا، مگر قلم کی لغزش انسان سے ہوسکتی ہے۔ آپ اپنے رسالے ہدایات( ص ۳ا) میں لکھتے ہیں :
’’ذکر الٰہی جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے،اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیہ کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے۔‘‘
یہ چوٹ اگر آپ جمیع صوفیہ پر نہ کرتے تو آپ کی دعوت کو کیا نقصان پہنچتا؟اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو واقعی صوفیہ کا حا ل معلوم نہیں یا آپ صوفیہ سے نفرت ظاہر کرکے تحریک اسلامی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ اس لیے ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔امید ہے کہ آپ اپنی اس عبارت میں تبدیلی کردیں گے۔

آپ نے تھوڑی سی بدگمانی سے کام لے کر یہ سمجھا کہ شاید میں اختلاف اور مخالفت میں فرق نہیں کرتا۔ الحمد ﷲ مولانا… نے ایسی تربیت دی کہ ہم دونوں میں فرق کریں ۔ اصلاح باطن کے بارے میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے،بعینہٖ یہی نصیحت ہم اپنے متعلقین کو کرتے ہیں ۔ ہم میں اور آپ میں شاید کوئی لفظی اختلاف ہورہا ہو۔مثلاً شوافع ] کذا! شافعیہ[ وحنابلہ سے ہم اختلاف کرتے ہیں مگر ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ امام شافعی ؒ کی راے غیر صحیح یا باطل ہے۔ مزید آپ فرماتے ہیں کہ وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیہ کے مختلف گروہوں نے ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے۔ میں ان کی کچھ مثالیں دریافت کرنا چاہتا ہوں ۔ نیز یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جو شخص صحیح کے خلاف طریقے پر ہے، اس کو آپ کیا فرمائیں گے؟ میں تو اس کے ساتھ صرف اختلاف نہیں بلکہ مخالفت بھی رکھتا ہوں ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ ایک شخص کو صحیح کے خلاف طریقے پر بھی سمجھیں اور پھر اس کے ساتھ مخالفت بھی نہ رکھیں ۔
جو طریقہ کتاب وسنت سے ہٹ کر نہ ہو،بلکہ اس کی روح اور مغز تک پہنچنے کے لیے ایجاد کیا گیاہو،اس کو غالباً آپ اپنے اصول کے مطابق اجتہاد فرمائیں گے (بدعت نہیں فرمائیں گے)۔ اسے قبول کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار حاصل ہے مگر اسے باطل یا غیر صحیح نہیں فرما سکتے۔اگر فرمائیں گے تو پھر اس سے نہ صرف اختلاف راے ہوگا بلکہ مخالفت ضروری ہوگی۔
ان امور کے بارے میں تصریح فرماویں تو بحث ختم ہوجائے گی۔

کیا تصوّف مفید ہے؟

تصوّف جس کی دوسری تعبیر احسان وسلوک بھی ہے،جس کی تعلیم اکابر نقش بندیہ،چشتیہ،سہروردیہ، قادریہ، وغیرہ نے دی ہے،جیسے حضرت شیخ شہاب الدین محمد نقش بند، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی اس تصوّف کو آپ حضرات دین کے لیے مفید سمجھتے ہیں یامضر؟

تصوّف کی اصطلاحات

سلسلۂ تصوّف میں چند اصطلاحات معروف و مروج ہیں ۔ قطب، غوث، اَبدال اور قیوم۔ قرآن و حدیث میں ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے متعلق جناب اپنی ذاتی تحقیق سے آگاہ فرمائیں ۔