اسلامی نظریۂ جہاد سے متعلق ایک شبہہ

آپ نے ایک مضمون’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جو کہ تفہیمات حصہ اول اور ’’ جہادفی سبیل اللہ‘‘ کے نام سے میں چھپ چکا ہے۔اس مضمون میں ایک جگہ پر آپ نے ذیل کی عبارت تحریر کی ہے:
’’مسلم پارٹی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی ایک خطے میں اسلامی نظام کی حکومت قائم کرنے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ جہاں تک اس کی قوتیں ساتھ دیں ، اس نظام کو اطراف عالم میں وسیع کرنے کی کوشش کرے۔یہی پالیسی تھی جس پر رسول اﷲﷺ اور آپ ؐ کے بعد خلفاے راشدین نے عمل کیا۔ عرب،جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی،سب سے پہلے اسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا۔ اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول ومسلک کی طرف دعوت دی، مگر اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں ،بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کردیا۔‘‘
اس عبارت پر بعض لوگ یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ یہ تعلیم اسلام اور تاریخ اسلام کی صحیح نمائندگی نہیں ہے اور اس سے اس الزام کو تقویت پہنچتی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے۔ آپ ترجمان میں توضیح فرمائیں کہ اس عبارت سے آپ کا مدعا کیا ہے اور اس کے لیے دلیل کون سی ہے؟

سائنسی دور میں اسلامی جہاد کی کیفیت

مسلمانوں کے جذبۂ ’’جہاد‘‘ کو زندہ رکھنے کے لیے آج بیسیویں صدی میں کیا طریق کار اختیار کیا جائے گا، جب کہ آج کی جنگ شمشیر وسناں سے یا میدان جنگ میں صف آرا ہو کر دست بدست نبرد آزمائی سے نہیں ہوتی، بلکہ سائنسی ہتھیاروں ، جنگی چالوں (strategy) اور جاسوسی (Secret Service) سے لڑی جاتی ہے؟آپ ایٹم بم، راکٹ،میزائل اور مشینی ایجادات وغیرہ کا سہارا لے کر اس سائنسی وایٹمی دَور میں ’’جہاد‘‘ کی تشریح کس طرح کریں گے؟ کیا چاند، مریخ و مشتری پر اترنے اور سیٹلائٹ چھوڑنے یافضا میں راکٹ سے پرواز کرنے اور نت نئی ایجادات کرنے والے مجاہدین کے زمرے میں آ سکتے ہیں ؟ انتظامی امور اور مملکتی نظام (Civil Administration) میں فوج کو کیا مقام دیا جاسکتا ہے؟موجودہ دور کے فوجی انقلابات سے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت اور افادیت بہت حد تک ثابت ہوچکی ہے۔کیوں نہ فوج کو دور امن میں بٹھا کر کھلانے کے بجاے ہر میدان میں قوم کی خدمت سپرد ہو؟

غیر اسلامی حکومت کے ذریعے سے زکاۃ کی تحصیل

حالاتِ حاضرہ کا پیدا کردہ ایک سوال دریافت کرتا ہوں ۔یہ کہ کیا ہماری شریعت میں کسی کافر کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہم سے صدقاتِ واجبہ وصول کرے یا یہ کہ حکومتِ کفر کی قانونی قوت کے ذریعے ان کی وصولی کا اہتمام کیا جائے، اور وہ اس طرح کہ اسمبلی میں ایک زکاۃ بل پاس کرالیا جائے؟اُمید ہے کہ واضح جواب دیا جائے گا۔

زکاۃ اور مسئلۂ تملیک

علماے حنفیہ بالعموم ادائگی زکاۃ کے لیے تملیکِ شخصی کو لازم قرار دیتے ہیں ۔اس لیے ان کا فتویٰ یہ ہے کہ حیلہِ تملیک کے بغیررفاہِ عام کے اداروں مثلاً مدارس اور شفا خانوں وغیرہ کے اجتماعی مصارف میں زکاۃدینا صحیح نہیں ۔ اس پر ایک مستفسر نے بعض اشکالات وسوالات علماے کرام کی خدمت میں پیش کیے تھے جو ترجمان القرآن، محرم۱۳۷۴ھ میں بھی شائع ہوئے تھے۔ سائل کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ فقہ حنفی میں تملیک کی جو شرط لگائی جاتی ہے اور اس کی بِنا پر جو فروعی احکام بیان کیے جاتے ہیں ،وہ صرف اسی صورت میں قابل عمل ہیں جب کہ لوگ انفرادی طور پر زکاۃ نکال کر انفرادی طور پر ہی اسے خرچ کریں ۔ لیکن اجتماعی طور پر مثلاً اسلامی حکومت کے ذریعے سے اگر زکاۃ کی وصولی وصرف کا انتظام کیا جائے تو شرط تملیک اپنے جزوی احکام کے ساتھ ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔کیوں کہ زکاۃ کے نظام کو وسیع اور مستحکم کرتے ہوئے زکاۃ کی تقسیم وتنظیم،حمل ونقل اور متعلقہ ساز وسامان کی فراہمی میں بے شمار شکلیں ایسی پیدا ہوں گی جن میں شرطِ تملیک کی پابندی محال ہوگی۔ ان سوالات کا جو جواب دیا گیا تھا وہ درج ذیل ہے:
جس فتوے پر یہ سوالات کیے گئے ہیں ،میرے نزدیک وہ آیت اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ… کی اس تأویل کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے جو حنفیہ نے اختیار فرمائی ہے۔اس مطلب کو سمجھنے کے لیے آیت کے الفاظ پر ایک نگاہ ڈال لیں ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ ( التوبۃ:۶۰)
’’صدقات تو فقرا کے لیے ہیں اور مساکین کے لیے،اور ان لوگوں کے لیے جو ان پر کام کرنے والے ہوں ،اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو…۔‘‘

فطرہ کی مقدار

فطرہ کی مقدار کے بارے میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔کوئی سوا سیر گیہوں دیتا ہے تو کوئی پونے دو سیر‘ اور کوئی سوا دوسیر۔ صحیح مقدار کیا ہے اور اس سلسلے میں آپ کا عمل کیا ہے؟

فطرہ کس پر واجب ہے؟

فطرہ کے سلسلے میں دوسری بات یہ دریافت کرنی ہے کہ اگر کوئی شخص خود صاحب نصاب نہیں ہے بلکہ اس کی بیوی صاحب نصاب ہے توفطرہ محض بیوی پر واجب ہوگا یا شوہر پر بھی؟ اور یہ کہ اولاد کی طرف سے بھی فطرہ دیا جائے گا یا نہیں ؟

قُطبین کے قریب مقامات میں نمازاور روزے کے اوقات

میرا ایک لڑکا ٹریننگ کے سلسلے میں انگلستان گیا ہوا ہے،آج کل وہ ایک ایسی جگہ قیام رکھتا ہے جو قطب شمالی سے بہت قریب ہے۔وہ نمازوں اور روزوں کے اوقات کے لیے ایک اُصولی ضابطہ چاہتا ہے۔بارش، بادل اور دھند کی کثرت سے وہاں سور ج بالعموم بہت کم دکھائی دیتا ہے۔کبھی دن بہت بڑے ہوتے ہیں ،کبھی بہت چھوٹے۔بعض حالات میں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب میں بیس گھنٹے کا فصل ہو تا ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں بیس گھنٹے یا اس سے زائد کا روزہ رکھنا ہوگا؟

روزے رکھنے کی طاقت کے باوجود فدیہ دینا

یہاں کیمبل پور({ FR 2135 }) میں ایک صاحب علم نے پچھلے ماہ رمضان میں ایک فتنہ کھڑا کیا تھا کہ رمضان کے بارے میں سورۂ البقرہ کی آیات بیک وقت نازل ہوئی تھیں اس لیے اﷲ نے شروع میں جو رعایت دی ہے کہ’’جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ،اور پھر نہ رکھیں ، تو وہ فدیہ ادا کریں ‘‘،یہ ایک اٹل رعایت ہے اور اب بھی اس سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔اس کی حمایت میں ایک آیت۱۸۳ کے آخری حصے کو پیش کیا گیا کہ اگر روزہ رکھو تو بہتر ہے اور نہ رکھو تو فدیہ ادا کردو۔ان کا کہنا تھاکہ آیت ۱۸۴پہلی آیات کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی،وہ پہلی آیات کی رعایت کو کیسے چھین سکتی ہے۔
آپ کی تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ آیات۸۲ا اور۱۸۳ تو جنگ بدر سے پہلے ۲ ہجری میں نازل ہوئیں اور آیت۱۸۴ ایک سال بعد نازل ہوئی۔اگریہ بات پایہِ ثبوت کو پہنچ جائے تو پھر ان کے اس خیال کی تردید ہوسکتی ہے کہ آج بھی ایک تندرست ہٹا کٹا انسان فدیہ دے کر روزے کی فرضیت سے بچ سکتا ہے۔
مذکورہ بالا صاحب اپنے آ پ کو علم حدیث کے استاد اور قرآن کے مفسر سمجھتے ہیں اور ہر دو کے متعلق اپنے افکار وخیالات دنیا کے سامنے پیش کرچکے ہیں ۔آپ براہ مہربانی کچھ تکلیف گوارا کرکے ان کتب کا حوالہ دے دیں جن سے آپ کو ثبوت ملا ہو کہ آیات ۱۸۲ا ور۱۸۳ تو ۲ہجری میں جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئیں اور آیت۱۸۴ ایک سال بعد نازل ہوئی۔اس طرح ہمارے پاس ایک سند ہوجائے گی اورہم انھیں اپنے فاسد خیالات کی نشرو اشاعت سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے۔یہ اسلام کی ہی خدمت ہے۔اُمید ہے کہ آپ ضرور ہمیں اپنے افکارِ عالیہ سے مستفید فرمائیں گے۔

فرضیتِ حج کی تاریخ

تفہیم القرآن جلد۲، صفحہ ۱۷۴(پر آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ)’’اس مقام پر یہ جان لینا فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ فتح مکہ کے بعد دور اسلامی کا پہلا حج ۸ہجری میں قدیم طریقے پر ہوا،پھر۹ ہجری میں دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر، اس کے بعد تیسرا حج۱۰ ہجری میں خالص اسلامی طریقے پر ہوا۔‘‘
۸ ہجری میں کون سے صحابہ حج کو تشریف لے گئے؟حج کی فرضیت کس سنہ میں ہوئی؟حج کی فرضیت کے ساتھ احکام نہ تھے؟ حضورﷺ نے عازمین حج کو کوئی ہدایات نہ دیں ؟ ۹ہجری میں صدیقؓ کی زیر قیادت اسلامی طریقے کو چھوڑ کر اپنے طریقے پر کیسے حج کیا؟ پھر حضور ﷺ نے صحابہ کو غیر اسلامی طریق پر حج کرنے میں کوئی تنبیہ نہ فرمائی؟ قدیم طریقے میں ننگے طواف ہوتا تھا۔ کیا صحابہؓ نے بھی ایسا کیا؟ ہر ایک جزیے کا تفصیلی جواب تحریر فرمادیں ۔