صوفیاء کے تزکیہ و تربیت کے طریقے
صوفیہ کے درمیان سبع لطائف کا ایک تدریجی اور ارتقائی طریقہ مروج ہے۔ کتب احادیث میں یہ طریق ذکر و فکر مروی نہیں ہے۔ اس کے بارے میں بھی راے گرامی تحریر فرمائیں ۔
صوفیہ کے درمیان سبع لطائف کا ایک تدریجی اور ارتقائی طریقہ مروج ہے۔ کتب احادیث میں یہ طریق ذکر و فکر مروی نہیں ہے۔ اس کے بارے میں بھی راے گرامی تحریر فرمائیں ۔
میں جناب کی توجہ ایک اچھی تجویز کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں ، میری راے ہے کہ جس طرح مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ نے اپنے دور کے اکابر و اعیان اورحُکام سلطنت امرا و زرا کی طرف پُر ازنصائح مکتوبات لکھ کر تبلیغ حق کا فریضہ ادا کیا، آپ بھی یہ طریق کار اختیار فرمائیں ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ہمیشہ ہر مسئلے کا گول مول جواب دیتے ہیں ،اور اگر مزید وضاحت چاہی جائے تو آپ بگڑ جاتے ہیں یا پھر جواب سے بے بس ہوکر انکار کردیتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ہنوز ایسے انسانوں کا ہم خیال نہیں ہوں ،کیوں کہ جہاں تک میں جانتا ہوں ،آپ ہمیشہ مسئلے کو دوٹوک اور وضاحت سے سمجھاتے ہیں ۔خدا کرے میرا یہ حسن ظن قائم رہے۔
گزارشات بالا کا لحاظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیجیے:
(۱)کوئی تارک الدنیا بزرگ ولی ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
(۲) حضرت رابعہ بصریؒ نے کیوں سنت نکاح کو ترک کیا تھا؟
(۳) حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی کے متعلق کہاجاتا ہے کہ انھوں نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ سیّد بابا فرید الدین گنج شکر کے ایک باطنی اشارے پر تاعمر شادی نہ کی تھی۔ آپ کے نزدیک پیرو مرشد کا خلاف سنت اشارہ کرنا اور مرید کا باوجود استطاعت کے سنت نکاح کو ترک کرنا کس حد تک درست ہے؟
شیطان اور نفس امارہ کے حملوں سے بچنے کے لیے کون کون سے شرعی اصول وضوابط اختیار کیے جائیں تاکہ حلاوت ایمان نصیب ہو اور کفر وعصیان سے دل بیزار ہو۔ کیا اورادو وظائف بھی اس مقصد کے حصول میں معاون ہوسکتے ہیں ؟
آپ حضرات موجودہ برسرا قتدار طبقہ اور امرا پر سخت تنقید کرتے ہیں ،اس بنا پر کہ وہ زبان سے تو’’اسلام اسلام‘‘پکارتے ہیں ، عوام اور غربا کی ہم دردی کا راگ الاپتے ہیں ،مگر ان کے اعمال ان کے اقوال سے سراسر مختلف ہیں ۔ لہٰذا خود آپ حضرات کے لیے تو یہ اشد ضروری ہے کہ(جب کہ آپ ایک اسلامی سوسائٹی برپا کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ) آپ کے اقوال و افعال میں کامل یکسانیت ہو۔ ورنہ آپ کی تنقید موجودہ اُمرا اور برسر اقتدارطبقے پر بے معنی ہے۔
میں جانتاہوں کہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی جائز کمائی سے اپنے آرام وآسائش کے سامان مہیا کریں ،اچھی غذائیں کھائیں ، مگر کیا ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف بھوک اور افلاس ہو،غریبی اور بے چارگی ہو،خصوصاًایک داعی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اچھے ملبوسات استعمال کرے،عمدہ غذائیں کھائے اور ایک پُرتکلف زندگی گزارے؟کیا رسول اﷲ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کی یہی روش تھی جب کہ وہ اسلامی تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھے؟آپ کے بعض ارکان کی ایک حد تک متعیشانہ (luxurious) طرزِ زندگی کو دیکھ کر میرے اندر یہ سوال پیدا ہوا ہے۔براہِ کرم میرے اس ذہنی خلجان کو دور کردیں ۔
اسلاف کی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’علمِ باطنی‘‘ ایک ایسا علم ہے جو قرآن و حدیث وغیرہ علوم سے جدا محض ریاضات ومجاہدات سے حاصل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اُمت مسلمہ میں بکثرت انسان ایسے ہوئے ہیں جن کی زندگیوں میں یہ ترتیب ملتی ہے کہ پہلے انھوں نے کتاب و سنت اور فقہ وکلام وغیرہ علوم کی تحصیل کی اور ان کو’’علمِ ظاہری‘‘ کا خطاب دیا۔ اس کے بعد’’ علوم باطنی‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لیے سخت ریاضتیں کیں ، تب کہیں جاکر انھیں ’’روحانی ‘‘علوم حاصل ہوئے اور ان کو انھوں نے ہمیشہ علومِ ظاہری پر ترجیح دی۔ براہ کرم کچھ اس پر روشنی ڈالیں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے علمِ باطنی کی کیا تعریف ہے؟اس کی حقیقت کیا تھی؟اس میں کتنی رنگ آمیزیاں ہوئیں ؟کیا یہ علم ریاضات ومجاہدات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا؟اور کیا علومِ ظاہری کی تحصیل کے بغیر بھی یہ علم حاصل ہوسکتا ہے؟
میرا تیسرا بیٹا پونے چار سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔اﷲ تعالیٰ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ یہاں آکر پہلے دو لڑکے فوت ہوئے، اب یہ تیسرا تھا۔ اب کسی نے شبہہ ڈالا تھا کہ جادو کیا گیا ہے۔ جس دن سے یہ بچہ پیدا ہوا، اسی دن سے قرآن پاک کی مختلف جگہوں سے تلاوت کرکے دم کرتا رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے لڑکے پونے دو سال کی عمر میں فوت ہوتے رہے، یہ پونے چار سال کو پہنچ گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جادو بھی چند الفاظ ہوتے ہیں ۔ اس کے توڑنے کو قرآن پاک کے الفاظ تھے۔ پھر دعائیں بھی بہت کیں ۔ بوقت تہجد گھنٹوں سجدے میں پڑا رہا ہوں ۔ لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی۔ حالاں کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات حاضر وناظر اور سمیع وبصیر ہے۔ کیا حق تعالیٰ جادو کے اثر کے لیے مجبور ہی ہوجاتے ہیں ؟ لوگ قبر والوں کے نام کی بودیاں رکھ کر پائوں میں کڑے پہنا کر اولاد بچاے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے اسے شرک سمجھ کر اس کی طرف رجوع نہ کیا۔ لیکن ہمیں بدستور رنج اٹھانا پڑا۔اکٹھے تین داغ ہیں جو لگ چکے ہیں ۔براہِ کرم اس غم وافسوس کے لمحات میں راہ نمائی فرمائیں ۔
لفظ شیطان کی ماہیت کیا ہے جو قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور یوں بھی عام فہم زبان میں استعمال ہوتا ہے۔کیا شیطان ہم انسانوں جیسی کوئی مخلوق ہے جو زندگی وموت کے حوادث سے دوچار ہوتی ہے اور جس کا سلسلہ توالد وتناسل کے ذریعے قائم ہے؟کیا یہ بھی ہماری طرح ہم آہنگی میں مربوط ہوتی ہے جس طرح سے ہم کھانے کمانے اور دیگر لوازمات زندگی میں مشغول رہتے ہیں ؟اس کے انسان کو دھوکا دینے کی کیا قدرت ہے؟کیا یہ اعضاے جسمانی میں سرایت کرجانے کی قدرت رکھتی ہے اور اس طرح انسان کے اعصاب ومحرکات پر قابو پالیتی ہے اور بالجبر اسے غلط راستے پر لگا دیتی ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دھوکا کیسے دیتی ہے۔
یا شیطان عربی زبان کی اصطلاح میں محض ایک لفظ ہے جو ہر اس فرد کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو تخریبی پہلو اختیار کرلے۔ یا یہ انسان کی اس اندرونی جبلت کا نام ہے جسے قرآن نفسِ اَمارہ یا نفسِ لوّامہ کے الفاظ سے تشبیہ دیتا ہے۔یعنی نفس جو غلط کاموں کی طرف اُکساتا ہے۔چوں کہ شیطان کا حربہ بڑا خطرناک ہوتا ہے اس لیے اس سے بچنے کی خاطر یہ سوال پوچھا جارہا ہے۔
میرے ایک لا مذہب عزیزکے خیال میں نظریۂ شیطان خدا کے واسطے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ خدا تو نیکی کی توفیق دیتا ہے اور شیطان برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ اور بظاہر توعام طور پر شیطان کی جیت ہوتی ہے۔ امید ہے کہ آپ کچھ وقت نکال کرمختصر جواب دیں گے۔
جب بھی کسی برائی کے سرز د ہوجانے کے بعد مجھے مطالعۂ باطن کا موقع ملا ہے،تو میں نے یوں محسوس کیا ہے کہ خارج سے کسی قوت نے مجھے غلط قدم اٹھانے پر آمادہ نہیں کیا بلکہ میری اپنی ذات ہی اس کی ذمہ دار ہے۔جب میری جبلی خواہش میرے فکر پر غالب آجاتی ہے اور میری روح پر نفسانیت کا قبضہ ہوجاتا ہے تو اس وقت میں گناہ کا ارتکاب کرتا ہوں ۔باہر سے کوئی طاقت میرے اندر حلول کرکے مجھے کسی غلط راہ پر نہیں لے جاتی۔ مگر جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ان فکری اور عملی گمراہیوں کا محرک شیطان ہے جو اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے۔یہ دشمن انسانیت کبھی خارج سے اور کبھی انسان کے اندر گھس کر اسے غلط راستوں پر لے جاتا ہے۔اس سلسلے میں دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ آپ بھی شیطان کو ایک مستقل وجود رکھنے والی ایسی ہستی تسلیم کرتے ہیں جو انسان کو بہکاتی اور پھسلاتی ہے۔