اذان کے کلمات میں  اضافہ

ہمارے یہاں  ایک صاحب نے اذان کے آخری کلمہ لا الہ الا اللہ کے بعد مائک ہی پر دھیمی آواز میں  محمد رسول اللہ کہا۔ اس پر میں  نے انہیں سخت الفاظ میں  ٹوکا اورکہا کہ اگر یہ اضافہ مقصود ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی یہ اضافہ کردیتے ۔ جب آپؐ نے اضافہ نہیں  کیا ہے تو اب ہمیں بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں  ہے۔ جواب میں  ان صاحب نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار نماز پڑھا رہے تھے۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے جب آپؐ نے سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ فرمایا تو ایک صحابی نے رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کے ساتھ حَمْداً کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًافِیْہِ کہا۔ اس اضافے پرآپؐ نے نکیر کرنے کے بجائے ان کی تعریف کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا اضافہ ،جو دین کی بنیادی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہو، غلط نہیں  ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں  ۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟

جہری اور سرّی نمازوں کی حکمت

ظہر اورعصر کی نمازوں میں قرأت خاموشی سے کی جاتی ہے ، جب کہ فجر ، مغرب اورعشاکی نمازوں میں بلند آواز سے ۔ اس کی کیا حکمت ہے ؟

فقہ مالکی میں نمازمیں دورانِ قیام ہاتھ کہاں باندھے جائیں ؟

نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق سوال کے جواب میں آپ نے حدیثوں کا تفصیلی حوالہ دیا ہے، پھر لکھا ہے کہ جمہورعلما (احناف ، شوافع، حنابلہ) کے نزدیک نمازی کو دورانِ قیام ہاتھ باندھنا چاہئے، البتہ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں کئی اقوال مروی ہیں ۔ ان اقوال کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھوں کا کھلا چھوڑنا یعنی مطلق نہ باندھنا قابل ترجیح ہے ۔
آپ کے جواب سے مزید چند سوالات ابھرتے ہیں :
۱- احادیث کی بیش تر کتابیں بعد کے زمانے میں مرتب ہوئی ہیں ۔ قدیم ترین مجموعۂ احادیث غالباً خود امام مالک ؒ کا مرتب کردہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان کی کتاب ’مؤطا ‘ میں کیا اس کے متعلق کوئی وضاحت ہے ؟
۲- امام مالک کی پوری زندگی مدینہ منورہ میں گزری ۔ انہوں نے طویل عمر پائی۔ عرصہ تک وہ مسجد نبوی میں درس دیتے رہے ۔ انہوں نےمدینہ میں تابعین اورتبع تابعین کی ایک بڑی تعداد کو لمبے عرصے تک مسجد نبوی میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ہم سب جانتےہیں کہ نماز ایسی عبادت ہے جس کا تواتر وتسلسل رسول اللہ ﷺ کے عہد سے لے کر آج تک قائم ہے اور قیامت تک رہے گا ۔ ظاہر ہے کہ دوسرے ائمہ کے مقابلے میں امام مالکؒ کو اہلِ مدینہ کا تعامل و تواتر دیکھنے کا زیادہ موقع ملا تھا ۔ ایسی صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ اہلِ مدینہ کا تواتر وتعامل اس مسئلہ میں کیا رہا ہے ؟
اگران سوالات کی مناسب وضاحت ہوجائے تواس مسئلہ کا شافی جواب مل سکتا ہے۔

نماز کا ایک مسئلہ

ہماری مسجد کے امام کو فجر کی فرض نماز کی پہلی رکعت میں غلطی کے نتیجے میں نماز دہرانا پڑی ۔ ہمارے ایک ساتھی نے ، جس کی پہلی رکعت چھوٹ گئی تھی اور جس نے امام کے ساتھ صرف دوسری رکعت پائی تھی ، امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت ملا کر اپنی نماز مکمل کرلی ۔ دیگر مصلیوں نے نماز دہرائی، لیکن اس نے نہیں دہرائی ۔ اس کا استدلال تھا کہ امام صاحب کو پہلی رکعت کی قرأ ت کی خامیوں کی وجہ سے نماز دہرانی پڑی ، جب کہ میں پہلی رکعت میں موجود ہی نہیں تھا ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ ہمارے ساتھی کو ایسی صورت میں نمازقضا کرنا پڑے گی یانہیں ؟

نمازِ جمعہ کے لیے نمازیوں کی کم سے کم تعداد

میرے گاؤں میں ایک زمانہ سے صرف ایک مسجد تھی۔ چند ایام قبل گاؤں کے دوسرے سرے پر ایک دوسری مسجد تعمیر کی گئی ۔ اس میں پنج وقتہ نماز یں اور نماز جمعہ شروع ہوگئی ہے ۔ اکثر لوگ بے نمازی ہیں ۔ پنج وقتہ نمازیں چند ہی لوگ پڑھتے ہیں ۔ نئی مسجد میں جمعہ کا آغاز ہوا تو تقریباً بیس (۲۰) افراد اکٹھا ہوئے ۔ کم وبیش اتنی ہی تعداد ہر جمعہ میں رہتی ہے ، کبھی اس سے کم بھی ہوجاتی ہے ۔ اس پرایک صاحب نے اعتراض کیا کہ چالیس (۴۰) افراد سے کم ہوں تو جمعہ کی نماز پڑھنی درست نہیں ہے ۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں ۔ کیایہ بات صحیح ہے ؟ نمازِ جمعہ صحیح ہونے کے لیے نمازیوں کی کم از کم کتنی تعداد ہونی چاہیے ؟

نمازِ قصر سے متعلق احکام

اگر کوئی اپنے آبائی وطن جاتا ہے تو وہاں پر نماز قصر ہوگی یا نہیں ؟ جیسے عورت کا میکہ اور مرد کا آبائی وطن؟

جمع بین الصلوٰتین اور دوسری جماعت کے بعض مسائل

میں ایک دینی مرکز کے کیمپس میں  واقع مسجد میں پنج وقتہ نمازیں ادا کرتا ہوں ۔ اس مرکز میں  آئے دن بڑے پروگرام ہوتے رہتے ہیں ، جن میں  شرکت کے لیے باہر سے مہمان تشریف لاتے ہیں ۔ یہ حضرات جمع بین الصلوٰتین کی نیت سے ظہر کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عصر کی نماز اور مغرب کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عشاء کی نماز باجماعت پڑھنے لگتے ہیں ۔ مسجد میں  آنے والوں کی خاصی تعداد مقامی لوگوں کی ہوتی ہے ، جنھیں مرکز میں  مہمانوں  کی آمد کا پتا نہیں ہوتا،ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی نماز پڑھی جارہی ہے؟جمع بین الصلوٰتین کے تحت عصر یا عشاء کی نماز پڑھی جارہی ہے یا ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت ہورہی ہے؟ عام لوگ ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت سمجھ کراس میں  شامل ہوجاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں  درج ذیل سوالات جواب طلب ہیں :
(۱) جب عام نمازیوں  کو غلط فہمی کا اندیشہ رہتا ہو تو اس طرح مسجد کے اندر جمع بین الصلوٰتین کہاں  تک درست ہے؟
(۲) جو لوگ ظہر یا مغرب کی نیت سے عصر یا عشاء کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں ، ان کی نماز ہوگی یا نہیں ؟ کیوں  کہ امام اورمقتدی دونوں کی نیت الگ الگ ہوگئی۔
(۳) اگر مسجد میں اذان یا جماعت کے متعینہ وقت سے پہلے با جماعت نماز ادا کی جائے تو درست ہے یا نہیں ؟