ماہِ رمضان میں نماز ِ وتر کی انفرادی ادائی

ایک شخص مستقل تہجد گزار ہے۔ لہٰذا وتر وہ تہجد ہی میں ادا کرتا ہے۔ رمضان میں نماز وتر تراویح کے بعد جماعت سے ادا کی جاتی ہے۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا تراویح کے بعد وتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے یا تہجد کے وقت نماز ِ تہجد کے بعد تنہا اس کی ادائی افضل ہے؟

بیماری کی بنا پر روزہ رکھنے سے معذوری

میں شوگر کا کئی سال سے مریض ہوں ، جس کی وجہ سے اس کے عوارض کا شکار رہتا ہوں ۔ وقتاً فوقتاً بلڈ شوگر کا ٹیسٹ کراتا رہتا ہوں ۔ آج کل فاسٹنگ تقریباً ۲۰۰ ہے، جب کہ نارمل ۱۱۰ تک رہنی چاہیے۔ ڈاکٹر اس مرض میں زیادہ دیر تک بھوکا رہنے سے منع کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ بھوک کی حالت میں شوگر لیول (Sugar Level) عموماً گرجاتا ہے، اور اگر وہ نارمل سے بھی نیچے چلا جائے تو شوگر لیول بڑھنے کے مقابلے میں یہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر ایسے مریض کو ہدایت کرتے ہیں کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے کچھ نہ کچھ کھاتا رہے۔ پیاس بھی اس مرض میں زیادہ لگتی ہے۔ امسال روزے کا دورانیہ تقریباً ساڑھے چودہ گھنٹے کا ہوگا۔ مجھ جیسے شوگر کے مریض کا اتنے لمبے عرصے تک بھوکا پیاسا رہنا صحت کے لیے ضرر رساں ہوسکتاہے۔ کیا میرے لیے گنجایش ہے کہ میں اس وقت روزہ نہ رکھوں اور بعد میں ان دنوں میں جب دن نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں ، ان کی قضا کرلوں ؟ بہ راہ کرم شریعت کی روشنی میں میری رہ نمائی فرمائیں ۔

نماز ِ تراویح کا مخصوص طریقہ

ہمارے شہر کی ایک مسجد میں گزشتہ تین سالوں سے رمضان کی طاق راتوں میں تراویح کی نماز اس طرح پڑھائی جاتی ہے کہ ہر چار رکعت کے بعد تقریباً ایک گھنٹے کا وقفہ دیا جاتا ہے، جس میں مختصر بیان ہوتا ہے اور مختلف اذکار پڑھائے جاتے ہیں ۔ مثلاً کبھی سورۂ یٰسٓ کی آیات، کبھی ایک ہی سانس میں بلند آواز سے ’’اللہ اللہ‘‘ اور کبھی ’’ربی اسمی شیء اللّٰہ نبی محمد صلی علی‘‘ پڑھایا جاتا ہے۔ درمیان میں مسجد ہی میں چائے پلائی جاتی ہے۔ اس طرح تراویح کی نماز ختم ہوتی ہے تو کچھ دیر کے بعد تہجد کی نماز باجماعت پڑھائی جاتی ہے۔ اس طرح سے سحری کا وقت ہوجاتا ہے۔ سحری کا نظم بھی مسجد میں ہوتا ہے۔
ان اعمال کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ کچھ لوگوں نے ان اعمال کو پسند نہیں کیا۔ اس مسجد میں عورتیں بھی تراویح کی نماز کے لیے آتی ہیں ۔ ان میں سے کچھ نے شکایت کی کہ تراویح کی نماز اس طرح سحری تک نہ پڑھائی جائے۔ جب کہ کچھ لوگ اس کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ رمضان عبادت کا مہینا ہے۔ اس طرح لوگ فجر تک مسجد ہی میں رہتے ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ عبادت، ذکر و دعا اور دینی بیان سننے کا موقع ملتا ہے۔ جب امام صاحب سے اس بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ خفا ہوجاتے ہیں اور مسجد چھوڑ کر چلے جانے کی بات کرتے ہیں ۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، مذکورہ بالا اعمال اور تراویح کا طریقہ کہاں تک درست ہے؟ کیا لوگوں کو فجر تک عبادت میں مشغول رکھنے کے لیے اس طرح تراویح پڑھنا صحیح ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ نماز ِ تہجد باجماعت پڑھنا کیسا ہے؟

بے وضو مصحف چھوٗنے کا مسئلہ

مولانا مودودیؒ نے آیت لاَ یَمَسُّہٗ اِلّاَ الْمُطَھَّرُوْنَ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ علامہ ابن حزمؒ نے مدلل لکھا ہے کہ بے وضو قرآن شریف کو چھو سکتا ہے۔ عرض ہے کہ ان کے کیا دلائل ہیں ؟ انھیں تفصیل سے بیان کردیں ، تاکہ مجھ جیسے معذور کے لیے گنجائش نکل آئے۔ میری عمر اس وقت ۹۲ سال چال رہی ہے۔ پیشاب کی کثرت اور دیگر عوارض قرآن کی تلاوت میں مانع ہوتے ہیں ۔ الحمد للہ میں حافظ ِ قرآن ہوں ۔ چالیس سال تراویح میں قرآن سناتا رہا ہوں ۔اب حافظہ بہت کم زور ہوگیا ہے۔ دیکھ کر پڑھنے پر مجبور ہوں ۔
واضح رہے کہ میں حیلہ نہیں تلاش کر رہا ہوں ۔ اسلام میں جب گنجائش ہے تو کیوں نہ اس پر عمل کیا جائے۔

جنابت کی حالت میں صبح کرنا

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع شدہ کتاب ’فقہ السنہ‘ میں روزوں کے ذیل میں بہ عنوان ’جنابت کی حالت میں صبح کرنا‘ ایک حدیث پیش کی گئی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں : ’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے، حالاں کہ آپؐ روزے سے ہوتے تھے، پھر آپ غسل فرماتے‘۔ (بہ حوالہ: بخاری و مسلم، ص: ۳۸۴)
اس حدیث کو پڑھ کر فوراً ہی یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا نبی ﷺ حالت ِ مذکور میں فجر کی نماز ترک کردیتے تھے؟ جنابت خواہ مباشرت کے ذریعے ہوئی ہو یا احتلام کے ذریعے، اس حالت میں روزہ رکھ لینا اور پھر فجر کی نماز ترک کرکے صبح کردینا ایسا عمل ہے، جس کی توقع اللہ کے عام نیک بندوں سے بھی نہیں کی جاسکتی، چہ جاے کہ اسے اللہ کے محبوب ترین پیغمبر سے منسوب کیا جائے۔ ایک شکل یہ تو ہوسکتی ہے کہ فجر کی نماز کے بعد انسان سوجائے اور حالت خواب میں وہ ناپاک ہوجائے، لیکن حدیث کے الفاظ ’جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے‘ اس بات کی صراحت کرر ہے ہیں کہ حالت ِ جنابت کا وقوع رات میں ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کتاب مذکور میں زیر بحث حدیث کے ضمن میں حاشیے میں فقہا کی جو آرا دی گئی ہیں ، ان میں بھی اس پہلو کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے، جب کہ حدیث مذکور کو درست مان لینے سے نبی ﷺ سے قصداً ترک ِ نماز کا عمل ثابت ہوتا ہے، جو کہ میری دانست میں نبی ﷺ پر ایک سنگین الزام ہے۔

رقمِ زکوٰۃ سے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائی

ہماری سوسائٹی کے تحت صوبے کے مختلف شہروں ، قصبات اور دیہاتوں میں تعلیمی ادارے چلتے ہیں ۔ اگرچہ طلبہ سے فیس لی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود بیش تر اداروں میں ماہانہ و سالانہ خسارہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تعمیر و مرمت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ اصحاب ِ خیر سے تعاون کی اپیل کی جاتی ہے تو جو رقمیں حاصل ہوتی ہیں وہ بالعموم زکوٰۃ کی ہوتی ہیں ۔ اگر اس رقم سے خسارہ پورا نہ کیا جائے اور اسے تعمیر و مرمت میں نہ لگایا جائے تو پھر کوئی اور صورت نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ ادارے ختم یا بے اثر ہوجائیں ۔ یہ صورت حال اس کے باوجود ہے کہ نادار اور غریب طلبہ کی فیس وغیرہ زکوٰۃ کی مد سے ادا کی جاتی ہے۔
بعض حضرات اس پر اعتراض کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی رقم اساتذہ کی تنخواہوں اور تعمیرات و مرمت پر صرف نہیں کی جاسکتی۔ بہ راہ کرم اس سلسلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں کہ کیا کیا جائے؟

روزوں کی قضا کا مسئلہ

بہ راہ کرم میرے درج ذیل سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں :
(۱) ولادت کے بعد ایامِ نفاس میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے کئی بچوں کی ولادت ماہ رمضان میں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے کافی روزے قضا ہوگئے ہیں اور ان پر عرصہ بیت گیا ہے۔ درمیان میں جب جب ہمت ہوئی ان میں سے کچھ روزے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صحت و تن درستی کے لحاظ سے کم زور و ناتواں واقع ہوئی ہوں ۔ گھریلو ذمہ داریاں بھی بہت ہیں ۔ جب جب روزہ رکھنے کی کوشش کرتی ہوں ، نڈھال ہوجاتی ہوں ۔ صحت اس میں تسلسل کی اجازت نہیں دیتی۔ مختلف عوارض کا علاج بھی جاری ہے۔ کیا ان حالات میں روزہ رکھ کر ہی قضا روزوں کا فرض ساقط ہوگا یا فدیہ دے کر بھی اس فرض سے سبک دوش ہوا جاسکتا ہے؟
(۲) اگر حج کا ارادہ ہو اور بہت سے روزوں کی قضا بھی لازم ہو تو کیا سفر سے پہلے قضا روزوں کی ادائی ضروری ہے؟
(۳) فدیہ کے سلسلے میں بھی وضاحت فرمائیں کہ اس کا صحیح طریقہ اور مقدار کیا ہے؟

رمضان میں امام مسجد کو بونس

ہمارے یہاں ایک مسجد ہے، جس کے امام کو ہر ماہ پانچ ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ تراویح پڑھانے کے لیے الگ سے ہنگامی چندہ کیا جاتا تھا اور اسے نذرانے کے طور پر امام صاحب کو دیا جاتا تھا۔ مگر بعض رسائل میں اس کے خلاف مستند اداروں کا فتویٰ شائع ہوا اور ہماری مسجد کے متولی صاحب نے بھی الگ سے فتویٰ منگوایا، جس میں اسے ناجائز کہا گیا تھا، تو اسے بند کردیا گیا۔ مگر پھر بونس کے نام سے دو ماہ کے برابر تنخواہ یعنی دس ہزار روپے عید کے موقع پر دیے جانے لگے۔ دلیل یہ دی گئی کہ سرکاری ملازمین اور بعض پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو بھی تہواروں مثلاً دیوالی وغیرہ کے موقع پر بونس دیا جاتا ہے۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

کیا حج سے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں ؟

عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ حج کے بعد حاجی گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ بہ طور دلیل یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو شخص اللہ کی خوش نودی کے لیے حج کرے اور (اثناے حج) فحش گوئی سے بچے اور نافرمانی نہ کرے تو وہ ایسا بے گناہ ہوکر لوٹتا ہے جیسے اس دن بے گناہ تھا، جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘ لیکن بعض کتابوں میں میں نے یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ حج ادا کرنے سے کبیرہ گناہ معاف نہیں ہوتے، ان کی سزا بہر حال مل کر رہے گی۔
اس تضاد کی وجہ سے میں الجھن کا شکار ہوگیا ہوں ۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

حج بدل

کیا حج ِ بدل کوئی ایسا شخص کرسکتا ہے، جس نے خود پہلے حج نہ کیا ہو؟