دُعا میں ہاتھ اُٹھانا

مقامی حلقوں میں میرے خلاف بعد نماز ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنے پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ یہاں بہت زیادہ آبادی ایک ایسے مسلک کے پیروں کی ہے جن کا امتیازی شعار ہی یہ ہے کہ دُعا میں ہاتھ نہ اُٹھائے جائیں ۔یہ حضرات میرے خلاف اپنے اعتراض میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً ( الاعراف:۵۵)’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے‘‘ کے ارشاد کا تقاضا یہی ہے کہ دعا میں حد درجے اخفا برتا جائے۔ بخلاف اس کے ہاتھ اُٹھانے سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ بدیں وجہ دعا میں ہاتھ اُٹھانا قرآن کے منشا کے خلاف ہے۔ نیز احادیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے کبھی اس کاالتزام کیا ہو۔ اب عوام کو دلائل سے تو کچھ مطلب نہیں ہوتا،وہ لکیر کی فقیری کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ مجھے صاف صاف کہہ دیاگیا ہے کہ میں ان کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کاحق نہیں رکھتا۔اس حکم کے نافذ کرنے والوں میں بعض حضرات خوب اچھے تعلیم یافتہ بھی ہیں ۔ خیر یہ جاہلیت کے کرشمے ہیں ۔ مجھے صرف مذکورۃ الصدر آیت کی روشنی میں اصل مسئلے کو سمجھائیے۔

نماز میں توجہ کی کمی کا مسئلہ

توجہ اور حضور قلب کی کمی کیا نماز کو بے کار بنادیتی ہے؟نماز کو اس خامی سے کیوں کر پاک کیا جائے؟نماز میں عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نہایت بے حضوری قلب پیدا ہوتی ہے اور ہو نی بھی چاہیے۔ کیوں کہ ہم سوچتے ایک زبان میں ہیں اور نماز دوسری زبان میں پڑھتے ہیں ۔اگر آیات کے مطالب سمجھ بھی لیے جائیں تب بھی ذہن اپنی زبان میں سوچنے سے باز نہیں رہتا۔

نواقضِ وضوکی حکمت

اسلام نے جسم ولباس کی طہارت ونظافت کا جو لحاظ رکھا ہے اس کی قدر وقیمت سے عقلِ انسانی انکار نہیں کر سکتی۔ لیکن اس سلسلے میں بعض جزئیات بالکل ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں ۔مثلاًریح کے نکلنے سے وضو کا ٹوٹ جانا، حالاں کہ جسم کے ایک حصے سے محض ایک ہوا کے نکل جانے میں بظاہر کوئی ایسی نجاست نہیں ہے جس سے وضو ساقط ہوجائے۔آخر اس ہوا سے کیا چیز گندی ہوجاتی ہے؟ اسی طرح پیشاب کرنے سے وضو کا سقوط، حالاں کہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے اورپھر اچھی طرح دھو لیا جائے تو کہیں کوئی نجاست لگی نہیں رہ جاتی۔یہی حال دوسرے نواقضِ وضو کا ہے، جس سے وضو ٹوٹنے اور تجدیدوضو لازم آنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔براہِ کرم اس اُلجھن کو اس طرح دور کیجیے کہ مجھے عقلی اطمینان حاصل ہوجائے۔

نواقضِ وضو کی تفصیل

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نماز کی تیاری کریں تو ہمیں وضو کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے لیے ازسر نو وضو کرنا ضروری ہے،نماز پڑھ لینے کے بعد وضو کی میعاد ختم ہوجاتی ہے اور دوسری نماز کے لیے بہرحال الگ وضو کرنا لازمی ہے۔پھر یہ سمجھ میں نہیں آسکا کہ لو گ ایک وضو سے کئی کئی نمازیں کیوں پڑھتے ہیں ۔اسی طرح قرآن میں وضو کے جو ارکان بیان ہوئے ہیں ،ان میں کلی کرنے اور ناک میں پانی لینے کا ذکر نہیں ہے اور نہ کہیں ایسے افعال وعوارض کی فہرست دی گئی ہے جن سے وضو ٹوٹتا ہے۔اس صورت میں کلی وغیرہ کرنا اور بعض اُمور کو نواقض وضو قرار دینا کیا قرآنی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے؟

مغربی معاشرے میں طہارت کی مشکلات

برطانیا کے قیام کے دوران میں احکامِ شریعت کی پابندی میں مجھے مندرجہ ذیل دشواری پیش آرہی ہے۔ براہِ کرم صحیح راہ نمائی فرما کر ممنون فرمائیں ۔
میری دقت طہار ت او ر نماز کے بارے میں ہے۔ مجھے سویرے نو بجے اپنے ہوٹل سے نکلنا پڑتا ہے۔اب اگر شہر میں گھومتے ہوئے رفع حاجت کی ضرورت پڑے تو ہر جگہ انگریزی طرز کے بیت الخلا بنے ہوئے ہیں ،جہاں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا پڑتا ہے۔اس سے کپڑوں پر چھینٹیں پڑنا لازمی ہے۔اجابت کے لیے صرف کاغذ میسر ہوتے ہیں ۔ایک بجے ظہرکا وقت ہوجاتا ہے۔اس وقت پانی کسی عام جگہ دستیاب نہیں ہوسکتا اور قیام گاہ تک آنے جانے کے لیے زحمت کے علاوہ کم ازکم ایک شلنگ خرچ ہوجاتا ہے۔نماز کے لیے کوئی پاک جگہ بھی نہیں مل سکتی۔ہوٹل میں گو پانی اورلوٹا میسر ہیں مگر پتلون کی وجہ سے استنجا نہیں ہوسکتا،البتہ وضو کیا جاسکتا ہے۔مگر اس میں بھی یہ دِقت ہے کہ پانی زمین پر نہ گرے۔ہاتھ دھونے سے لے کر سر کے مسح تک تو خیر باسن(انگریزی بیسن) میں کام ہوجاتا ہے۔لیکن پائوں دھونے کے لیے باسن پر رکھنے پڑتے ہیں جو یہاں کی معاشرت کے لحاظ سے انتہائی معیوب ہے۔

کُتوں کے منہ لگے ہوئے کپڑوں کو دھونا

یہاں مغربی معاشرے میں لوگ عام طور پر کُتّے پالتے ہیں ۔ملاقات کے وقت پہلے کتے ہی استقبال کرتے ہیں اور کپڑوں کو منہ لگاتے ہیں ۔ انتہائی کوشش کے باوجود اس مصیبت سے بچنامحال ہے۔ کیا ایسی صورت میں جرابوں اور کپڑوں کو بار بار دھلوایا جائے؟

جرابوں پر مسح

موزوں اور جرابوں پر مسح کے بار ے میں علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔میں آج کل تعلیم کے سلسلے میں اسکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں مقیم ہوں ۔یہاں جاڑے کے موسم میں سخت سردی پڑتی ہے اور اونی جراب کا ہر وقت پہننا ناگزیر ہے۔کیا ایسی جراب پر بھی مسح کیا جاسکتا ہے؟براہِ نوازش اپنی تحقیق احکام شریعت کی روشنی میں تحریر فرمائیں ۔

حضرت عائشہ ؅ کا صاع پانی سے غسل کرنا

نبی ﷺ کی مقدس احادیث کے لیے میرے دل میں احترام کا جذبہ کسی کٹر سے کٹر اہل حدیث سے کم نہیں ۔اسی لیے ہر وقت دُعا مانگتا رہتا ہوں کہ خدا مجھے منکرین حدیث کے فتنے سے بچاے۔ لیکن چند احادیث کے متعلق ہمیشہ میرے دل میں شکوک وشبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔اُمید ہے کہ آں جناب ازراہِ کرم درج ذیل حدیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور اس کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے نبی ﷺ کے غسل کے متعلق استفسار کیا گیا تو انھوں نے برتن منگوا کر اور پردہ لٹکا کر اپنے بھائی اور ایک غیر شخص کی موجودگی میں غسل فرمایا۔({ FR 1827 })(بخاری،جلد اوّل صفحہ۳۹ ) ازراہ کرم اس حدیث کے متعلق میری پریشانی دور فرماکر مشکور فرمائیں ۔

کھڑے ہوکر پیشاب کرنا

اُمید ہے کہ آں جناب ازراہِ کرم درج ذیل حدیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے۔
حضرت حذیفہؓ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ کھاد کے ایک ڈھیر کے قریب گئے اور میرے سامنے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔

رسول اللّٰہﷺ کے لعاب سے حصولِ برکت

صحیح البخاری باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ، حدیث۲۷۳۱میں صحابہ کی ارادت مندی اور عقیدت کاذکر کرتے ہوئے عُروہؓ ذکر کرتے ہیں : فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ ({ FR 2177 }) نخامہ کھنکارکو بھی کہتے ہیں اور جو غلیظ مواد ناک سے نکلتا ہے اس کو بھی۔ ان میں سے جو بھی ہو، بہرحال قابل غور ہے۔ کیا حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کے نخامہ کی یہ کیفیت نہیں ہوتی تھی جو عام طور پر ہوتی ہے؟یافرط عقیدت کی وجہ سے صحابہ کو اسے چہرے اور جسم پر مل لینے میں اجنبیت نہیں محسوس ہوتی تھی؟ حضورﷺ کی نفاست پسندی اس میں حائل کیوں نہ ہوئی؟