پیروں کا دھونا یا اُ ن پر مسح کرنا

آیت وضو(المائدہ:۶) میں فَاغْسِلُوْا اور وَامْسَحُوْا دو فعل استعمال ہوئے ہیں ۔ پہلے سے چہرے اور کہنیوں تک دھونے کا حکم ہے، اور دوسرے سے پیروں اور سر کے مسح کرنے کا حکم ہے۔ سمجھنا یہ مقصودہے کہ اہل سنت پیر دھوتے ہیں ،پیروں کا مسح کیوں نہیں کرتے؟ یہ بات کہاں سے ظاہر ہوتی ہے کہ پیر وضو کے آخر میں دھوئے جائیں ۔جواب مفصل اور واضح ہونا چاہیے۔

واقعۂ قرطاس کی تحقیق

رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے وقت مشہور واقعۂ قرطاس کی اصل نوعیت کیا ہے؟حضرت عمرؓ کا اس معاملے میں کیا موقف ہے؟

رسول اللّٰہ ﷺ کی تاریخ وفات و ولادت

میرے دل میں سخت پریشانی ہے کہ فرقہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ سرکار رسالت مآب کی وفات و ولادت۱۲؍ ربیع الاول ہے اور فرقہ شیعہ کا خیال ہے کہ حضور ﷺ کی پیدائش ۱۷؍ ربیع الاول اور وفات ۲۸؍صفر ہے۔ حضورؐ کی وفات کے وقت اہل بیت و صحابہ کرام دونوں موجود تھے۔ اختلاف کیوں ہوا اور کب ہوا؟ اصحابِ محمدؐ و اہل بیت محمدؐ کے زمانے میں ان کا کیا عمل تھا؟ طبیعت پریشان ہے۔

رسول اللّٰہﷺ کی تجہیز وتکفین اور صحابہؓکی فکر ِخلافت

صحابہ کرامؓ اور خاص طور پر حضرت ابوبکر ؓ وحضرت عمرؓ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ رسول اﷲﷺ کے کفن دفن میں شریک نہ ہوئے اور خلافت وبیعت کے مسئلے میں اُلجھے رہے۔ حضورﷺ کے غسل اور کفن دفن میں شریک ہونا کتنی بڑی سعادت تھی اور خود محبت رسول کا کیا تقاضا تھا؟

حضرت ابو بکرؓ کا خلیفہ بنا یا جانا

جب معاملۂ خلافت پہلی مرتبہ حضرت ابو بکرؓ کے حق میں مسجد نبوی میں طے ہوا تو کیا اس وقت حضرت علیؓ موجود تھے؟اگر نہیں تو ان کو بلایا گیا یا نہیں ؟

حضرت ابو بکرؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کی باہمی رنجیدگی

ایک شیعہ عالم نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت فاطمہؓ ،حضرت صدیق اکبرؓ سے تادم مرگ ناراض رہیں اور انھیں بدعا دیتی رہیں ۔ انھوں نے اس امر کے ثبوت میں الامامۃ والسیاسۃ کے حوالے دیے ہیں جو ابن قتیبہ کی تصنیف ہے۔انھوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ابن قتیبہ کو سنی علما مستند مانتے ہیں ۔چنانچہ انھوں نے مولانا شبلی کی ’’الفاروق‘‘ میں سے ایک عبارت دکھائی ہے جس میں اس مصنف کو نام ور اور قابل اعتماد قرار دیا گیا ہے۔ نیز شیعہ عالم نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ نے بھی اپنے رسالہ’’اسلامی دستور کی تدوین‘‘ میں الامامۃ والسیاسۃمیں سے ایک خط نقل کیا ہے جو ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ نے حضرت عائشہؓ کو لکھا تھا۔ براہِ کرم حضرت فاطمہ ؓ کی ناراضی کی حقیقت واضح کریں ۔ نیز اس امر سے بھی مطلع کریں کہ ابن قتیبہ کی کتا ب کا علمی پایہ کیا ہے اور وہ کس حد تک قابل اعتبار ہے؟

فرقہ بندی کے معنیٰ

آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو سختی کے ساتھ فرقہ بندی سے منع کرتے ہیں ۔اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ آخر صوم وصلاۃ وحج وغیرہ ارکان کو کسی نہ کسی مسلک کے مطابق ہی ادا کرنا ہوگا۔ تو پھر بتایئے کہ کوئی مسلمان فرقہ بندی سے کیسے بچ سکتا ہے؟میرا اپنا یہ خیال ہے کہ بموجب آپ کی راے کے کہ قرآن وحدیث کے موافق جو مسئلہ ملے اس پر عمل کیا جائے، بجز اہلِ حدیث کے کسی فرقے کے ہاں جملہ جزئیات میں قرآ ن وحدیث سے مطابقت نہیں پائی جاتی۔پس میں نے فی الجملہ مسلک اہل ِ حدیث کو اپنے لیے پسند کیا ہے، پھر کیا میں بھی فرقہ بندی کے الزام کا مورد ٹھیروں گا؟

فقہی اختلاف کے باوجود نماز با جماعت ادا کرنا

میرا تعلق جس فرقے سے تھا، اس کے بعض سنجیدہ علما یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ فقہی مسلک میں جماعت اسلامی کے ارکان کو آزادی دیتے ہیں اور واقعتاً جزوی معاملات میں مختلف گروہ متحد الخیال ہیں بھی نہیں ، تو پھر آپ نماز کی جماعت میں سب کی شرکت کو لازمی کیوں قرار دیتے ہیں ؟ خود نماز سے متعلقہ مسائل میں بہت اختلافات ہیں اور ان کی بِنا پر لوگ اپنی نمازیں الگ پڑھنا چاہتے ہیں !

فقہی اختلافات کی بِنا پر بعض صورتوں میں حنفی،اہل حدیث اور شافعی حضرات علیحد ہ علیحدہ نماز پڑھنے پرمجبور ہوجاتے ہیں ۔مثلاً ایک گروہ اوّل وقت نماز پڑھنے کو ترجیح دیتا ہے اور دوسرا تاخیر کو افضل سمجھتا ہے۔اب ان سب کا مل کر ایک جماعت میں نماز پڑھنا کسی نہ کسی کو افضل نماز سے محروم ہی کرے گا۔اگر ’’افضل نماز‘‘ کی کوئی اہمیت ہے تو پھرآپ کیوں اس’’ایک ہی جماعت‘‘ کے اُصول پر اتنا زور دیتے ہیں ؟