میراث کے چند مسائل
ہمارے علاقے میں ایک صاحب کافی مال ودولت اورجائیداد کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنے کاروبارمیں اپنے چھوٹے بھائی کو بھی شریک کرلیاتھا، جس نے ان کے کاروبار کو ترقی دینے میں خوب محنت کی تھی ۔ اس کا وہ اعتراف کرتے تھے۔ انہیں اپنے بھائی سے بہت محبت اور انسیت تھی۔ یہ صاحب بہت مخیر تھے۔ انہوں نے وراثت میں ملاہوا مکان رہائش کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کودے دیاتھا، جس سے کبھی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ ان کے انتقال تک (۳۵سال) وہ ان کے چھوٹے بھائی کے پاس ہی رہا۔ انہوں نے اپنے بیٹوں سے بھی کبھی اس مکان کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ دس بیگھے آراضی کا ایک آم کا باغ تھا، جس کی ہرفصل کی آمدنی وہ ایک دینی جماعت کو دیا کرتے تھے اور دودکانوں کے کرایے کی آمدنی وہ اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے کو دیتے تھے۔
ان صاحب نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنے ورثاء میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کے چار بیٹے تھے۔ انہوں نے تقسیم کی جانے والی جائیداد کی فہرست تیارکی اوراسے ایک دو رکنی کمیٹی کے حوالے کیا اورکہا کہ اسے پانچ حصوں میں تقسیم کردے۔چارحصے ان کے بیٹوں کے اورپانچواں حصہ انہوں نے اپنا لگوایا۔ جائیداد کی اس تقسیم میں انہوں نے مذکورہ بالا تین چیزیں ( وہ مکان جوبھائی کودےدیاتھا، آم کا باغ اوردودکانیں ) شامل نہیں کیں ۔
ان صاحب کے انتقال کو پندرہ سال گزرچکے ہیں ۔ اب ان کے لڑکے اپنے چچا سے مکان کی واپسی یا اس کی قیمت کی ادائیگی کامطالبہ کررہے ہیں ۔ نیز ان کے ایک لڑکے نے اس پانچویں حصے پر قبضہ کررکھا ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے پاس رکھا تھا اوراس میں اپنے بھائیوں کا حصہ لگانے پر آمادہ نہیں ہے۔
براہِ کرم واضح فرمائیں ۔ کیا مرحوم کے لڑکوں کا اپنے چچا سے مکان کی واپسی کا مطالبہ کرنا درست ہے؟