وصیت کس قدر کی جا سکتی ہے؟

کوئی شخص جس کی دو شادی شدہ لڑکیا ں ہیں ، لڑکا کوئی نہیں ہے، لڑکیوں کی اجازت کے بعد کیا وہ اپنی تمام جائیداد بیوی کے نام وصیت کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے، بیوی کے بعد وہ جائداد لڑکیوں ہی کی ہوگی۔ اگر پوری جائیداد کی وصیت بیوی کے حق میں جائز نہیں تو کس قدر کی جا سکتی ہے؟

ورثا کے حق میں وصیت

صوبائی حکومت کاشت کی زمین میں وراثت میں بیٹی کو حصہ نہیں دیتی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کا حصہ مقرر فرمایا ہے۔ اس لیے بیٹیاں وراثت سے محروم رہ جاتی ہیں ۔ تو کیا اضطراری حالت میں بیٹی کے حق میں وصیت کرکے اسے حصہ دیاجاسکتا ہے؟ حالاں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مستحقینِ وراثت کے حق میں وصیت کی ممانعت فرمائی ہے۔ دیگر متبادل کی ﻻﻻبھی نشان دہی فرمائیں ۔

اولاد کوعاق کرنا

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کوعاق کردیا، یعنی اپنی وراثت سے اسے محروم کرنے کا اعلان کردیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں اپنی زندگی میں کسی کوکچھ یا سب دینے کا حق رکھتا ہوں تو میں کسی کو محروم کرنے کا بھی حق رکھتا ہوں ۔ کیا ان کایہ عمل درست ہے ؟

اولاد میں جائیداد کی تقسیم

تقسیم وراثت کے سلسلے میں دو مسئلے دریافت طلب ہیں ۔ براہِ کرم ان کے سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں :
۱- میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔ وہ گاؤں پررہنے والے بھائیوں کے تصرف میں ہے۔ میں روزگار کے سلسلے میں شروع سے باہر رہا ۔ والد صاحب کے انتقال کوپچیس سال گزرگئے ہیں ۔ بہ ظاہر معلو م ہوتا ہے کہ بھائی میراث تقسیم کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں اورمجھے بھی تقاضا کرنے میں تکلف ہورہا ہے ۔ بتائیے، میں کیا کروں ؟
۲- میرے تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ۔ سب شادی شدہ ہیں ، لڑکے خود کفیل ہیں ۔ میں نے حسب موقع ہر ایک کے مکان کی تعمیر کے وقت حسب گنجائش تعاون کیا ہے ۔ لڑکیوں کونقد کی شکل میں دیا ہے ۔ میرے پاس اب کچھ نہیں بچا ہے جومیرے مرنے کے بعد بہ طور وراثت تقسیم ہو۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟

زندگی میں مال وجائیداد کی تقسیم

الحمدللہ میری تجارت میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت دی اورمیں نے خوب کمایا۔ کافی جائیداد پیدا کی ، کئی پلاٹس خریدے، کئی منزلہ کشادہ مکان بنوایا ۔ میری اہلیہ کے علاوہ تین لڑکے اورتین لڑکیاں ہیں ۔
میں نے سوچا کہ میں اپنی زندگی ہی میں تمام مال وجائیداد اپنے متعلقین میں تقسیم کردوں ۔ چنانچہ میں نے اس کا کچھ حصہ اپنے لیے الگ کرکے بقیہ ان میں تقسیم کردیا ۔ اہلیہ کو آٹھواں حصہ دیا اورلڑکوں لڑکیوں میں دوایک کے تناسب سے بانٹ دیا ۔ میری ایک لڑکی معذور ہے، اس لیے اس کا حصہ میں نے اپنے پاس رکھا ہے ۔
اب میں چاہتا ہوں کہ جوحصہ میں نے اپنے لیے الگ کیا تھا اسے صدقہ وخیرات کردوں ، تاکہ بارگاہ الٰہی میں اس کا اجر مجھے ملے ۔ میرے لڑکے اور لڑکیاں خود کفیل ہیں ، اس لیے چاہتا ہوں کہ میرے اپنے لیےبچائے ہوئے حصے میں سے ان کوکچھ نہ ملے۔ ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ کوئی ایسا انتظام ہوجائے کہ میرے مرنے کے بعد میری معذور لڑکی کے حصے پر کوئی قبضہ نہ کرلے۔
بہ راہِ کرم اس معاملے میں میری رہ نمائی فرمائیں ۔

مرنے کے بعد آنکھوں کی وصیت

کیا کوئی شخص یہ وصیت کرسکتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی آنکھیں کسی مستحق کودے دی جائیں ؟ آج کل آنکھوں کے عطیے(Eye Donation) کی ترغیب دی جاتی ہے اورکہا جاتا ہے کہ اس طرح ایک آدمی کی دو آنکھوں سے چارنابینا لوگوں کو روشنی مل سکتی ہے۔ بہ راہ کرم اس سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر واضح فرمائیں ؟

وراثت کے بعض مسائل

میری اہلیہ کا چند ایام قبل انتقال ہوگیا۔ ایک بیٹا اورتین بیٹیاں ہیں ۔ میرے والدین (میری اہلیہ کی ساس اورسسر)باحیات ہیں اور میری اہلیہ کے والدین بھی ہیں  اور ان کے تین بھائی بھی ہیں ۔بہ راہ کرم بتائیں  کہ ان کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟
یہ بھی بتائیں کہ اگر مستحقین میراث میں سے کوئی اپنا حصہ نہ لینا چاہے تو کیا اس کی اجازت ہے؟

دوبیویوں میں تقسیم وراثت

ایک شخص کی دوبیویاں ہیں ۔ ایک بیوی سے ایک لڑکا اور دولڑکیاں ہیں ، دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ۔ اس شخص کا انتقال ہوتو اس کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ قرآن مجید میں کہاگیا ہے کہ اولاد ہونے کی صورت میں بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ۔ پھر کیا دونوں بیویوں کا حصہ الگ الگ ہوگا؟ اولاد والی بیوی کو آٹھواں اور بے اولاد والی بیوی کو چوتھا حصہ دیا جائے گا؟براہِ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔

:میرے چچا کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے۔ چچی ابھی زندہ ہیں ۔ان کی چار لڑکیاں ہیں ۔ لڑکا کوئی نہیں ہے۔ مرحوم کا ایک بھائی اوردوبہنیں بھی حیات ہیں ۔ رہائشی مکان کے علاوہ ان کی کچھ زمین جائیداد ہے اورکچھ نقدرقم بھی ۔ اسے وارثین میں کیسےتقسیم کریں گے؟ کیا بیوہ اور لڑکیوں کی موجودگی میں بھائی اوربہنوں کا بھی کچھ حصہ ہوگا؟
جواب :وراثت کے احکام قرآن مجید میں سورۂ نساء میں بیان کردیے گئے ہیں ۔ ان کے مطابق:
(۱) اگر اولاد ہوتو بیوی کوآٹھواں حصہ ملے گا۔فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ (النساء ۱۲)
(۲) اولاد میں اگر لڑکیاں ہوں اوروہ دو یا دو سے زائد ہوں تو ان کا حصہ دو تہائی ہوگا۔
فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ( ا لنساء۱۱)
(۳) وارثین میں بھائی بہن بھی ہوں تو اصحاب الفرائض (جن کے حصےمتعین ہیں ) کو دینے کے بعد جوکچھ بچے گا وہ ان کے درمیان اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ عورت کا حصہ اکہرا اور مرد کا حصہ دوہرا ہوگا۔وَاِنْ كَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّنِسَاۗءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَـيَيْنِ (النساء۱۷۶)
مذکورہ حصوں کواگر فی صد میں بیان کرنا ہوتو چاروں لڑکیوں کو۷ء۶۶فی صد (ہر لڑکی کو۷ء۱۶%ملے گا) بیوہ کو۵ء۱۲% ، بھائی کو۴ء۱۰%اور دونوں بہنوں کوبھی۴ء۱۰% ملے گا۔ (ہربہن کے حصے میں ۵ء۲%آئے گا۔)
سوال :ایک صاحب کا انتقال ہوا۔ان کے اکاؤنٹ میں دو(۲) لاکھ روپے ہیں ۔ ان کے والدین کا انتقال ہوگیا ہے۔ ایک بڑے بھائی اورچار(۴) بہنیں تھیں ۔ ان کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ زندہ رشتے داروں میں بیوہ،چار(۴) بیٹے،تین (۳) بھانجے اورتین (۳)بھانجیاں ہیں ۔ ان پر کوئی قرض نہیں اور نہ انھوں نے کسی کے حق میں کچھ وصیت کی ہے۔ ان کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟

ایک خاتون، اس کے شوہر اور لڑکے کا انتقال کار حادثے میں ہوگیا۔ اس کی صرف ایک لڑکی بچی ہے ، جو نازک حالت میں اسپتال میں داخل ہے۔ یہ خاتون شادی سے پہلے نوکری کرتی تھی، جو شادی کے بعد دو ماہ تک جاری رہی۔ نوکری کے وقت کی کچھ رقم بینک میں جمع ہے۔ اس بینک اکاؤنٹ میں مرحومہ نے اپنے والد کونام زد(nominee )کیا تھا۔ شادی کے وقت والد نے اپنی بیٹی کو کچھ سونا بشکل زیور دیا تھا۔ شوہر نے بھی مہر بشکل زیورا دا کیا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس کی کمائی ہوئی رقم میں شوہر کی رقم ملاکر اس کے نام پر مکان لے لیا جائے، لیکن یہ نہ ہو سکا۔اس وقت اس رقم میں شوہر کی رقم شامل نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس خاتون کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ اس کے ورثہ میں اس کی لڑکی ہے ، جو نازک حالت میں اسپتال میں ہے اور اس ( مرحومہ) کے والد اور والدہ ہیں ۔
مرحومہ کی ساس اور سسر بھی بقید حیات ہیں ۔ اس خاتون کی وراثت میں ان لوگوں کا کچھ حق بنتا ہے یا نہیں ؟
وہ لڑکی جو زخمی حالت میں ہے، اس کی عمر صرف ساڑھے تین سال ہے۔وہ کس کی زیر پرورش رہے گی؟ ددھیال یا ننہیال کے؟