جناب ازراہِ کرم درج ذیل احادیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور ا س کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔
حدیث نمبر۱:حضرت سبرہؓ کی روایت نکاح متعہ کے متعلق کہ ہم دو ساتھی بنی عامر کی کسی عورت کے پاس گئے اور اُسے اپنی خدمات پیش کیں ۔
حدیث نمبر۲: حضرت جابررضی اللّٰہ عنہ کی روایت کہ ہم نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے عہد میں مٹھی بھر آٹا دے کر عورتوں کو استعمال کرلیتے تھے اور اس حرکت سے ہمیں حضرت عمرؓ نے روکا۔

بدکاروں کی باہمی مناکحت کا موزوں ہونا

میں نے ایک دوشیزہ کو لالچ دیا کہ میں اس سے شادی کروں گا۔پھر اس کے ساتھ خلاف اخلاق تعلقات رکھے۔میں نہایت دیانت داری سے اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس لڑکی کے خاندان کی عام عورتیں زانیہ اور بدکار ہیں ۔یہاں تک کہ اس کی ماں بھی۔ اب مجھے خوف ہے کہ اگر میں اس لڑکی سے شادی کرلوں تو وہ بھی بدچلن ثابت نہ ہو۔ ترجمان القرآن کے ذریعے سے مطلع کیجیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ … ( النور:۲۶) کا مفہوم کیا ہے؟

منگنی کا شرعی حکم

کیا شرعی لحاظ سے خِطبہ] منگنی[ نکاح کا حکم رکھتا ہے؟عوام اس کو ایجاب وقبول کا درجہ دیتے ہیں ۔اگر لڑکی کے والدین ٹھیری ہوئی بات کو رد کردیں تو برادری میں ان کا مقاطعہ تک ہوجاتا ہے۔اس صورت میں اگر والدین اس لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کردیں تو کیا یہ فعل درست ہوگا؟

لڑکی والوں کی طرف سے رشتہ میں پہل کرنا

عموماً لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں اس کا انتظار کیا جاتا ہے کہ دوسری طرف سے نسبت کے پیغام میں پہل ہو، چنانچہ اسی انتظار میں بعض اوقات لڑکیاں جوانی کو طے کرکے بڑھاپے کی سرحد میں جا داخل ہوتی ہیں اور کنواری رہ جاتی ہیں ۔ اس معاملے میں اسلام کیا کہتا ہے؟

ہم پلا لوگوں میں شادی کرنا

ایک مقروض مسلمان جو تمام اثاثہ بیچ کر بھی قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، بیٹے بیٹیوں کی شاد ی کرنا چاہے تو فریق ثانی کی طرف سے ایسی شرائط سامنے آتی ہیں جو بہرحال صرفِ کثیر چاہتی ہیں ، تو اس کے لیے کیا راہ عمل ہے؟

شادی پر استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرنا

ایک مفلس مسلمان اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے۔افلاس کے باوجود دنیا والوں کا ساتھ دینے کا بھی خواہش مند ہے،یعنی شادی ذرا تزک واحتشام سے کرکے وقتی سی مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس کی راہ نمائی کیسے کی جائے؟

والدین کی اطاعت کے حدود

میں اپنے حالات مختصراً پیش کرتا ہوں ۔مجھے بتلایئے کہ کون سا ایسا طریق ِکار اختیار کروں کہ میرے اسلام میں فرق نہ آئے۔({ FR 2066 })
والدین اُٹھتے بیٹھتے اصرار کررہے ہیں کہ[ نظامِ کفر کی] ملازمت پر واپس چلا جائوں ۔ بحالت موجودہ وہ نہ صرف اپنا بلکہ خدا کا نافرمان بھی گردانتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ صرف ایسے وقت پر والدین کی نافرمانی جائز ہے جب وہ یہ کہیں کہ خدا کو نہ مانو۔باقی تمام اُمور میں والدین کا حکم شرعی طور پر واجب التعمیل ہے۔ عن قریب وہ اعلان کرنے والے ہیں کہ نوکری پر چلاجائوں تو بہتر، ورنہ میرا ان سے کوئی تعلق نہ رہ سکے گا۔بس وہ اتنی رعایت مجھے دیتے ہیں کہ اگر میں مستقل طورپر ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتا تو کم از کم سال ڈیڑھ سال اور اختیار کیے رکھوں ، حتیٰ کہ میرے چھوٹے بھائی بی اے کرلیں اور میری خالی جگہ کو پُرکرسکیں ۔ اس سلسلے میں گناہ وہ اپنے سرلیتے ہیں ۔

بیوی اور والدین کے حقوق

میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں ،جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں ۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے،وہاں بحیثیت بیو ی کے بعض اُمور میں اس کو حقیر بھی کردیا ہے۔ مثلاًاس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کردیا ہے، حالاں کہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ واختیار میں رکھا گیا ہے،وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ واختیار میں کردیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کرسکتا ہے۔ان اُمور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کررہی ہوں ۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں ؟