بیوی کی کمائی میں شوہر کا حق

کچھ لوگ عورتوں کی ملازمت کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں کہ جو رقم تنخواہ کے طور پر عورت حاصل کرتی ہے وہ مرد پر حرام ہے۔ بہ راہ کرم اس بارے میں وضاحت فرمائیں ؟

نکاح میں دھوکہ

ایک اہم مسئلہ درپیش ہے۔ گزارش ہے کہ اس سلسلے میں صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔ ایک صاحب کی شادی کو تین ماہ سے کچھ زائد ہوئے ہیں ۔ شادی کے بعد لڑکی ایک دن سسرال میں گزار کر میکے چلی گئی۔ وہاں سے ٹھیک پندرہ دن بعد جب وہ دوبارہ سسرال آئی تو اس کے طرزِ عمل سے معلوم ہوا کہ اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اور وہ نفسیاتی مریضہ ہے۔ اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟
(الف) کیا یہ رشتہ باقی رہنے دیا جائے؟ جب کہ لڑکی کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اور لڑکا نارمل ہے۔
(ب) اگر طلاق کی نوبت آجائے تو کیا لڑکی کو صرف مہر کے ساتھ رخصت کیا جائے؟ یا مہر کے ساتھ دوسری چیزیں (جیسے جائیداد، مکان وغیرہ) بھی واپس کردی جائیں ؟
(ج) لڑکی والوں کی طرف سے دھوکہ دیا گیا ہے۔ یعنی انھوں نے اس بات کو قطعی صیغۂ راز میں رکھا کہ لڑکی ابنارمل (Abnormal)ہے۔ ایسی صورت میں کیا پنچایت کے ذریعے ان پر تاوان (Penalty) عائد کیا جاسکتا ہے؟
آپ سے استدعا ہے کہ مذکورہ سوالات کے جوابات کتاب و سنت کی روشنی میں عنایت فرمائیں ۔

زوجین کے درمیان بے اعتمادی اور ناموافقت کا حل

ایک نجی مسئلہ میں شرعی رہ نمائی کی غرض سے رجوع کر رہا ہوں ۔ میرے دن نہایت کرب میں گزر رہے ہیں ، اس لیے درخواست ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، مجھے رہ نمائی سے نوازیں ۔ میری شادی کو کچھ ہی عرصہ ہوا ہے، جس سے ایک اولاد ہے۔ میری بیوی پہلے کسی اور سے محبت کرتی تھی، مگر شادی مجھ سے ہوگئی۔ اس نے اپنے سابقہ تعلقات کو مجھ سے چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ شروع ہی سے وہ میرے سامنے اس شخص کی مبالغہ آمیز تعریف اور اس سے تعلق ِ خاطر کا اظہار کرتی رہی ہے۔ بیوی کی ذاتی کتابوں اور ڈائریوں میں میں نے مخصوص انداز میں مذکورہ شخص کا نام، پتہ اور فون نمبر وغیرہ لکھا ہوا پایا ہے۔ مزید برآں دوران سفر اس سے ایسی حرکتوں کا صدور ہوتا ہے (جیسے اجنبی مردوں سے نظریں ملانا، ان سے بلاتکلف باتیں کرنا وغیرہ) جو مجھے قطعاً پسند نہیں ہیں ۔ ان حالات میں میری نظر میں بیوی کا کردار مشکوک ہوگیا ہے۔ میں سخت ذہنی الجھن اور پریشانی میں ہوں ۔ میری زندگی میرے لیے بوجھ اور مصیبت بنی ہوئی ہے۔ کیا میں بیوی کے بارے میں شک کرنے میں حق بہ جانب ہوں ؟ کیا ایسی صورت میں میرے لیے طلاق دینا جائز ہے؟ اگر طلاق دوں تو اس کی وجہ کیا بتاؤں ؟ طلاق کی صورت میں غیرشرعی عدالت کے ذریعے مجھ سے ناروا مطالبات (مال جائیداد وغیرہ) کیے جائیں گے۔ کیا آخرت میں مجھے ان کا بدل ملے گا؟ ان حالات میں بیوی کے ساتھ نباہ کرنا کیا صبر ہے، جس پر میں عند اللہ ماجور ہوں گا؟ یا بے غیرتی ہے، جسے کسی شریف آدمی کو ہرگز برداشت نہیں کرنا چاہیے؟ ان سوالات سے میں ذہنی طور پر از حد پریشان ہوں ۔ بہ راہ کرم میرے مسائل کا شریعت کی روشنی میں حل تجویز فرمائیں ۔

طلاق کے بعد حلالہ کا حکم

میں فوج میں ملازمت کر رہا ہوں ۔ میرے بہت سے ساتھی غیرمسلم ہیں ، وہ وقتاً فوقتاً اسلام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں ۔ ایک موقعے پر ایک صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ ’’اسلام میں بیوی کو طلاق دینے کے بعد اسے واپس لینے کے لیے حلالہ کرانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ تو طوائف گیری جیسا کام ہوا۔‘‘ میں نے انھیں جواب دینے کی کوشش کی لیکن اس جواب سے وہ مطمئن نہ ہوسکے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب مرحمت فرمائیں ۔ یہ اعتراض عموماً غیرمسلموں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

دورانِ عدّت عورت کا لباس

کیا شوہر کی وفات کے بعد عورت کے لیے دورانِ عدت سونے یا چاندی کے زیورات، جیسے چوڑی، بندے، انگوٹھی اور سونے کی زنجیر (Chain)والی گھڑی کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ زیور کے علاوہ اس کو سرمہ لگانے اور سر میں تیل ڈالنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ اسے کیسا لباس پہننا چاہیے؟

مسئلہ ظہار

ہمارے علاقے میں ایک عجیب طرح کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک صاحب نے کسی بات پر ناراض ہوکر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ ’’تم میرے لیے حضرت فاطمہؓ کے برابر ہو۔‘‘ بعد میں وہ پشیمان ہوئے۔ مقامی علماء سے مسئلہ معلوم کیا۔ بعض علماء کی یہ رائے سامنے آئی کہ اس جملے سے ظہار ثابت ہوگیا۔ اب بیوی اس شخص پر حرام ہوگئی۔ظہار کا مسئلہ قرآن میں سورۂ مجادلہ کے شروع میں بیان ہوا ہے۔ میں نے بعض کتب ِ تفسیر سے رجوع کیا، لیکن مسئلہ منقح ہوکر میرے سامنے نہ آسکا۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ لیکن انھوں نے اس سلسلے میں فقہاء کے اختلافات بیان کردیے ہیں ۔ اپنی طرف سے کوئی قطعی بات نہیں لکھی ہے۔ میری نظر میں ظہار میں صرف خونی رشتے ماں ، بہن، بیٹی ، خالہ، پھوپھی وغیرہ یا رضاعت کے رشتے ہی آتے ہیں ۔ اس میں عام عورتوں کو بھی شامل کرنا نصِّ قرآن کے خلاف ہے۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا صورت مسئولہ میں ظہار ثابت ہوگیا؟

حضانت کا حق

میری شادی، جیسا کہ آپ کے علم میں ہے، میرے مرحوم دوست کی بیوہ سے ہوئی ہے۔ اس اقدام سے میں خوش ہوں ۔ ایک سوال یہ ہے کہ مرحوم کی ایک بچی ہے، جو اب تک اپنی ماں ہی کے ساتھ رہتی تھی، لیکن اب اس کے ددھیال والے اسے لے جانا چاہتے ہیں ۔ یہ صورت حال ماں کے لیے تکلیف دہ ہے۔ وہ فطری طور پر پریشان ہے۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ بچی ماں کے ساتھ ہی رہے۔ مجھے کیا کرنا چاہیے، اس میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

غیر مسلم عورت سے نکاح جائز نہیں

ایک نوجوان نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ اس کا باپ فوت ہوچکا ہے ماں حیات ہے۔ ماں نے اس کی شادی اپنی برادری کے ہندو گھرانے میں طے کردی ہے۔ لڑکا غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنا نہیں چاہتا، مگر ماں بہ ضد ہے اور کہتی ہے کہ تم شادی تو ہندو لڑکی سے ہی کروگے چاہے بعد میں تم اس کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کرلو۔ ایسی صورت میں لڑکی اور اس کے والدین کا دباؤ بھی لڑکے پر پڑ سکتا ہے جو مزید پیچیدگی پیدا کرسکتا ہے۔ اور اس کا بھی امکان ہے کہ لڑکی اور اس کے والدین کو لڑکا آئندہ اسلام کی دعوت دے اور وہ اسے قبول کرلیں ۔ بہرحال، آئندہ کیا صورت پیدا ہوگی، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذا ان حالات کو سامنے رکھ کر برائے مہربانی شرعی مسئلہ واضح فرمائیں ۔ ساتھ ہی اس سلسلہ میں اٹھنے والے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب بھی ارسال فرمائیں :
۱- صحابہ کرامؓ کے سامنے بھی ایسی صورتیں پیش آتی رہی ہوں گی۔ ان حالات میں ان کے رشتوں کی کیا نوعیت رہی؟
۲- کیا نو مسلم لڑکا ہندو لڑکی سے شادی کرکے بعد میں مسلمان بنا لینے کی نیت سے رشتۂ ازدواج قائم کرسکتا ہے؟ اور اس درمیان اس رشتہ سے پیدا ہونے والی اولاد کی کیا حیثیت ہوگی؟ یہ باتیں وضاحت طلب ہیں ۔

نکاح میں ولی کی شرط اور اس کا اختیار

نکاح کے لیے ولی کی شرط اور اس کے اختیار سے متعلق بعض سوالات پیش خدمت ہیں ۔ ان کا جواب مطلوب ہے۔
۱- کیا مسلمان عورت جو عاقلہ اور بالغہ ہے اس کا ولی کسی ایسے شخص سے اس کا نکاح کرسکتا ہے جسے وہ ناپسند کرتی ہے۔ کیا اس طرح کی لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کرنے کا ولی کو اختیار حاصل ہے؟
۲- کیا کسی مسلمان عورت کے لیے جو بالغہ عاقلہ ہے اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے نکاح کرلے، چاہے ولی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے۔ باپ یا ولی کی مرضی کے خلاف جو نکاح ہو اس کا کیا حکم ہے؟
۳- کیا کسی نابالغہ کے باپ یا ولی کو اس کا حق حاصل ہے کہ بلوغ سے پہلے ہی اس کا نکاح کردے؟ اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا بلوغ کے بعد اس نکاح کو باقی رکھنا لڑکی کے لیے ضروری ہے؟
۴- ولی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
یہ ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے، اس میں شریعت کا نقطۂ نظر وضاحت سے آنا چاہیے۔

ولی کے ذریعہ نکاح

مجھ سے ایک صاحب نے کچھ سوالات کیے۔ چوں کہ یہ سوالات نئے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کسی عالم دین سے ان کا جواب معلوم کرکے بتا سکوں گا۔ ان سوالات کے لیے آپ کو زحمت دے رہا ہوں ۔
۱- سوال کنندہ کی والدہ اور لڑکا امریکہ میں تقریباً دو سال سے نو آباد کی حیثیت سے سکون پذیر ہیں ۔
۲- سوال کنندہ کی والدہ یہاں ہندستان آکر اپنے بھائی کی لڑکی سے اپنے لڑکے کے لیے منگنی کرکے واپس امریکہ چلی گئیں ۔
۳- اس وقت لڑکا امریکہ میں ہے۔ لڑکے کے نکاح کے لیے لڑکا اور والدہ دوبارہ ہندستان آکر نکاح کرکے بہو کو امریکہ لے جانا چاہتے ہیں ، اس لیے کہ بہو کو امریکہ لے جاکر (Sponsor) اسپانسر یعنی کفیل کرانے کے لیے کم از کم ایک سال کی مدت تو ضرور ہوگی بلکہ کچھ زیادہ بھی۔ جب ہی اس کو ویزا (Visa) ان کو جانے کے لیے ملے گا۔ یعنی شادی کے بعد دولھا امریکہ جاکر اپنی دلھن کو اسپانسر کرنے پر ویزا مل سکتا ہے جو کافی مدت کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔
اس مدت کو مختصر کرنے کے لیے اگر نوشہ امریکہ میں رہتے ہوئے ٹیلی فون پر نکاح کرکے نکاح نامہ حاصل کرلے تو اس کی بنیاد پر دلھن کو امریکہ جانے کے بعد ازسرِنو شریعت کے مطابق دوبارہ نکاح کروانے کے لیے وہ تیار ہے۔ دریافت طلب بات یہ ہے کہ اس طرح سے فون پر کیا ہوا نکاح جائز ہے یا نہیں ۔ اگر نہیں ہے تو اس طرح کے نکاح کی وساطت سے امریکہ جاکر پھر شریعت کے مطابق دوبارہ نکاح کروا سکتے ہیں یا نہیں ؟