کفاء ت کا مسئلہ

شادی بیاہ کے معاملے میں کفو کا مسئلہ ہمیشہ رہا ہے۔ شاید ہمارے فقہاء کے یہاں اس پر بڑا زور ہے۔ اب اس پر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے یا نہیں ۔ براہِ کرم واضح فرمائیں کہ فقہاء کا نقطۂ نظر فی الواقع کیا ہے؟ اس مسئلہ میں ہم آپ کی رائے بھی جاننا چاہتے ہیں ۔

طلاق کے بعد نفقہ

بعض اوقات اس طرح کی صورت حال سامنے آتی ہے کہ ایک شخص کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں اس کی بیوی اس کا ساتھ دیتی ہے اور وہ اس کے تعاون کی وجہ سے کسی اچھے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ پھر کسی چھوٹے موٹے اختلاف کی بنا پر ان میں علاحدگی ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد عورت کے تمام حقوق ختم ہوجاتے ہیں ۔ اس کا کیا جواز ہے؟ اس طرح کی خواتین کے نان نفقہ کا کون ذمے دار ہوگا؟
بعض لوگ بڑی آسانی سے اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اس عورت کا باپ اس کے نان نفقہ کا ذمے دار ہوگا۔ لیکن عقلی لحاظ سے یہ بات بڑی عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ ایک عورت نے شادی کے چالیس پچاس برس جو اس کی زندگی کے بہترین ایام تھے، شوہر کے ساتھ گزارے، مثبت طریقے سے اپنے فرائض ادا کیے، اچھا تعاون (Contribute) کیا، اب وہ اچانک باپ کے گھر آجائے۔ ضعیف العمر باپ پر بیٹی کے نان نفقہ کی ذمے داری ڈالنا کیا خلاف عقل نہیں ہے؟

مطلقہ کا تاحیات نفقہ

کبھی کبھی یہ تجویز سامنے آتی ہے کہ جو شخص طلاق دے اس پر جب تک مطلقہ زندہ ہے اس کا نفقہ لازم کر دیا جائے۔ اس طرح ایک تو طلاق دینا آسان نہ ہوگا۔ دوسرے یہ کہ مطلقہ کے نفقہ کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوسکے گا۔ اس ذیل میں آپ کی کیا رائے ہے؟

عدت میں رجوع

ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی (ایک ہی بار) مدت تین ماہ ختم ہونے سے سترہ دن پہلے رجوع کرلیا۔ ایک صاحب کو جو اس معاملہ میں پڑے تھے تاکید کردی کہ وہ بیوی کو اس کی اطلاع دے دیں ۔ سوال یہ ہے کہ:
۱- اگر تین ماہ گزرنے سے پہلے بیوی کو اس کی اطلاع مل گئی تو کیا یہ رجعت شرعی ہوگی؟
۲- اگر اس شخص نے وقت پر اطلاع نہیں دی اور بعد میں زوجہ کے علم میں لایا گیا تو کیا یہ رجعت معتبر ہوگی؟

مہر ادا کرنے کی صورتیں

پانچ شرعی مسئلے دریافت کرنا چاہتا ہوں ۔ امید ہے آپ جواب دیں گے۔
۱- زید کے نکاح کو کئی برس ہوگئے مگر اس نے اب تک اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا۔ مہر مؤجل تھا۔ اب وہ سارا مہر یک مشت ادا کرے یا وہ مجبوری کی بنا پر ماہانہ قسطوں میں بھی ادا کرسکتا ہے؟ اس کی بیوی مہر طلب نہیں کر رہی ہے۔ وہ صرف شرعی تقاضا مکمل کرنا چاہتا ہے۔
۲- اگر بیوی پوری زندگی میں کبھی بھی اپنا مہر طلب نہ کرے تو کیا زید گناہ گار ہوگا؟
۳- کیا بیوی سے مہر معاف کرایا جاسکتا ہے؟ یہ بات معلوم ہے کہ وہ جب بھی طلب کرے گی تو شرعی تقاضے اور اخلاقی نقطۂ نظر سے اُسے ضرور دینا ہوگا۔
۴- اگر سونا بحیثیت مہر دیا جاسکتا ہے تو زید نے سونے کے جو زیورات نکاح کے موقعے پر بری کے طور پر دیے تھے کیا وہ مہر مانے جاسکتے ہیں جب کہ اُن زیورات کی قیمت مہر کی رقم کے برابر ہو۔
۵- کیا مہر سونے کی شکل میں یعنی زیورات کی شکل میں دیا جاسکتا ہے؟
۶- کیا مہر نقد رقم کے علاوہ کسی دوسری شکل میں بھی دیا جاسکتا ہے مثلاً جائداد۔

کیا آپ کی راے میں وقف علی الاولادایکٹ ۱۹۱۳ء میں بغرض اصلاح اس ترمیم کی ضرورت ہے کہ وقف شدہ جائداد کے اضافہ قیمت یا دیگر مفاد کی خاطر بہ اِجازتِ عدالت اسے فروخت یا تبدیل کیا جائے یا کسی اور مفید طریق پر عمل ہو سکے؟

انفساخِ نکاح بذریعہ عدالت

قانون انفساخِ نکاح کے سیکشن (۲) میں جو وجوہِ انفساخ درج ہیں کیا آپ کے نزدیک ان میں اضافے یا کمی کی ضرورت ہے؟

کیا ایسا قانون وضع ہونا چاہیے کہ اگر عورت انفساخِ نکاح کا مطالبہ کرے اور عدالت کی راے میں قصور وار شوہر ہو تو طلاق حاصل کرتے ہوئے عورت سے نہ مہر واپس دلوایا جائے اور نہ دوسری چیزیں جو خاوند اسے دے چکا ہو؟

کیا زوجین کا ایسا اختلافِ مزاج جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی ناخوش گوار ہو جائے جائز طور پر وجہِ فسخِ نکاح ہو سکتا ہے؟

قانون انفساخ نکاح کے کلاز (۳) سیکشن (۳) میں سات سال کی قید کی بنا پر نکاحِ فسخ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس مدت میں کمی کرکے چار سال کر دیا جائے؟