مردے کے لیے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب

مردہ کے لیے دعائے مغفرت کے بارے میں مشہور ہے کہ جب کسی آدمی کاانتقال ہوتا ہے تو تین دن ہر صبح اس کی قبر پر جاکر کچھ اذکار اور قرآن کی کچھ سورتیں پڑھ کر دعائے مغفرت کی جاتی ہے۔ پھر واپس آکر اس کے گھر والوں کی تعزیت کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ فاتحہ پڑھتے وقت اکثر لوگ قبرستان میں ہاتھ اوپراٹھانے پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قبرستان میں ہاتھ اوپر اٹھا کر مردے کے لیے دعائے مغفرت کرنا منع ہے۔ بہ راہ کرم اس سلسلے میں صحیح رہ نمائی فرمائیں اور بتائیں کہ ایصالِ ثواب کے سلسلے میں شریعت کے کیا احکام ہیں ؟

وراثت میں اخیافی بھائی بہنوں کا حصہ

قدوری (کتاب الفرائض،باب الحجب) میں یہ عبارت درج ہے:
أَنْ تَتْرُكَ الْمَرْأَةُ زَوْجًا وَأُمًّا- أو جدَّةً – وأختين (أو اخوة) من أم وأخا لأب وَأُمٍّ، فَلِلزَّوْجِ النِّصْفُ وَلِلْأُمِّ السُّدُسُ وَلِوَلَدِ الأُمِّ الثُّلُثُ وَلَا شَيَء لِلاِئخْوَةِ مِنَ الْأ بِ وَالْأمِ({ FR 1552 })یعنی اگر ایک عورت کے وارثوں میں اس کا شوہر اور ماں یا دادی اور اخیافی(ماں شریک) بھائی اور سگا بھائی موجود ہوں تو شوہر کو آدھا حصہ، ماں کو چھٹا حصہ، او ر اخیافی بھائی بہنوں کو ایک تہائی حصہ ملے گا اور سگے بھائیوں کو کچھ نہ ملے گا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ احناف کا مفتیٰ بہ قول ہے؟کیا یہ قرین انصاف ہے کہ برادر حقیقی تو محروم ہوجائے اور اخیافی بھائی وارث قرارپائے؟لفظ کلالہ کی قانونی تعریف بھی واضح فرمائیں ۔ کیا والدہ اور دادی کے زندہ ہونے کے باوجود بھی ایک میت کو کلالہ قرار دیا جاسکتا ہے؟

والدین کی مشتبہ جائدا د اور کمائی سے استفادہ

مدت سے جماعت ِاسلامی میں شامل ہونے کے لیے اپنے آپ کو تیار کررہا ہوں مگر رزقِ حرام سے اپنے آپ کو بچانے اور حلال اورطیّب طریقوں سے ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے میں کام یاب نہیں ہو رہا ہوں ۔ ہمارا آبائی ذریعۂ معاش زمین داری ہے اور مجھے یہ معلوم ہے کہ مدتوں سے ہماری زمینیں نہ تو شرعی ضابطے کے مطابق وارثوں میں تقسیم ہوئی ہیں اور نہ ان میں سے شرعی حقوق ادا کیے جاتے رہے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ مجبوراً میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے والدین سے روپیا لیتا ہوں ۔ اس کا لینا اور استعمال کرنا جائز ہے یانہیں ؟نیز یہ کہ آئندہ جو میراث مجھے ان سے پہنچنی ہے وہ مجھے لینی چاہیے یا نہیں ؟

زمین داری اور آباو اجداد کی میراث کی تقسیم

بڑے بھائی بتلاتے ہیں کہ اگر نوکری [نظامِ کفر کی ملازمت]حرام ہے تو زمین داری کون سی حلا ل ہے۔ ہماری زمین سرکار (ایک ریاست) نے ہمارے آبائ و اجداد کو بخشش کے طور پر دی تھی ۔وہ تو تمھارے نظریے کی رُو سے حلال آمدنی قطعاً نہیں دے سکتی۔علاوہ بریں اسلام میں زمین دارہ سسٹم سرے سے ناجائزہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دادا نے اپنی جائداد بروے شریعت تقسیم نہیں کی تھی۔ ان کی وراثت صرف نرینہ اولاد میں چلی ہے اور مستورات کو محروم رکھا گیا ہے۔پھر نوکری کو حرام کہنے کے بعد ایسی جائدادپر کوئی شخص کیسے بسر اوقات کرسکتاہے؟

پوتے کی محرومیِ وراثت

دادا کی زندگی میں اگر کسی کا باپ مر جائے تو پوتے کو وراثت میں سے کوئی حق نہیں پہنچتا۔ یہ مشہور شرعی مسئلہ ہے جس پر اِس وقت حکومت کی طرف سے عمل ہورہاہے۔اس بارے میں مختلف مسلک کیا ہیں اور آپ کس مسلک کو مزاج اسلامی سے قریب تر خیال فرماتے ہیں ۔ اگر آپ کا مسلک بھی مذکورہ ہی ہے تو اس الزام سے بچنے کی کیا صورت ہے کہ اسلامی نظام جو یتیم کی دست گیری کا اس قدر مدعی ہے،ایک یتیم کو محض اس لیے دادا کی وراثت سے محروم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو دادا کی وفات تک زندہ نہ رکھ سکا؟

اہ رمضان المبارک کو تین عشروں  میں تقسیم کیاجاتا ہے۔پہلے عشرہ کو عشرۂ رحمت، دوسرے کو عشرۂ مغفرت اور تیسرے کو عشرۂ نجات کہاجاتا ہے۔ ہر عشرہ کے اعتبار سے الگ الگ دعائیں بھی تجویز کی گئی ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ یہ تقسیم ایک حدیث پرمبنی ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا یہ تقسیم درست ہے؟ وہ حدیث کس پایہ کی ہے؟ یہ بھی بتادیں ۔

وراثت کے بعض مسائل

میری اہلیہ کا چند ایام قبل انتقال ہوگیا۔ ایک بیٹا اورتین بیٹیاں ہیں ۔ میرے والدین (میری اہلیہ کی ساس اورسسر)باحیات ہیں اور میری اہلیہ کے والدین بھی ہیں  اور ان کے تین بھائی بھی ہیں ۔بہ راہ کرم بتائیں  کہ ان کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟
یہ بھی بتائیں کہ اگر مستحقین میراث میں سے کوئی اپنا حصہ نہ لینا چاہے تو کیا اس کی اجازت ہے؟

دوبیویوں میں تقسیم وراثت

ایک شخص کی دوبیویاں ہیں ۔ ایک بیوی سے ایک لڑکا اور دولڑکیاں ہیں ، دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ۔ اس شخص کا انتقال ہوتو اس کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ قرآن مجید میں کہاگیا ہے کہ اولاد ہونے کی صورت میں بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ۔ پھر کیا دونوں بیویوں کا حصہ الگ الگ ہوگا؟ اولاد والی بیوی کو آٹھواں اور بے اولاد والی بیوی کو چوتھا حصہ دیا جائے گا؟براہِ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔

کیا باپ زندگی میں اپنی زمین جائیداداولاد کے درمیان تقسیم کرنے میں کمی بیشی کر سکتا ہے؟

ایک صاحب اپنے ایک بیٹے سے بہت خفا ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اسے عاق کردوں گا۔ اس طرح میرے مرنے کے بعد اسے میری جائیداد میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس بیٹے نے میری زیادہ خدمت کی ہے، اسے میں زیادہ دوں گا اور دوسرے بیٹوں کو کم۔
کیا ان کا یہ کہنا درست ہے؟ کیا اسلام میں نافرمان بیٹے کو عاق کرنا جائز ہے؟ اور کیا باپ زندگی میں اپنی جائیداد بیٹوں میں تقسیم کرنا چاہے تو کیا وہ ان کے درمیان کمی بیشی کر سکتا ہے؟

وراثت کی تقسیم کب کی جائے؟

ہمارے ايک عزيز کا انتقال ہوا۔ وہ اپنے پيچھے چار لڑکے، دو لڑکياں اور بيوہ کو چھوڑ گئے ہيں ۔ تين لڑکے اور ايک لڑکي بالغ ہيں ، ايک لڑکا اور ايک لڑکي نابالغ ہيں ۔ ان ميں سے کسي کي ابھي شادي نہيں ہوئي ہے۔ وراثت کا مسئلہ درپيش ہے۔ اس سلسلے ميں براہِ کرم درج ذيل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائيں ۔
(۱) کيا کسي شخص کے انتقال کے فوراً بعد وراثت کي تقسيم کر ديني چاہيے، يا اسے کچھ مدت کے ليے ملتوي کيا جاسکتا ہے؟
(۲) کيا يہ طے کيا جا سکتا ہے کہ پہلے تمام بچوں کي شادياں ہوجائيں ، ان ميں سب مل جل کر خرچ کريں ، بعد ميں وراثت تقسيم کي جائے؟
(۳) اگر تمام مستحقين وراثت کو مشترک رکھنا چاہتے ہيں تو کيا اس کي اجازت ہے؟ اگر نہيں تو کيا تقسيم عمل ميں آنے کے بعد وہ پراپرٹي کو مشترک رکھ سکتے ہيں ؟