تحریکی خواتین کا دائرہ عمل
میں الحمد للہ جماعت اسلامی ہند کی رکن ہوں ، دس سال سے زیادہ عرصے سے جماعت سے وابستہ ہوں اور اس کی سرگرمیوں میں حسب توفیق حصہ لیتی ہوں ۔ لیکن پچھلے کچھ وقت سے میں ایک الجھن میں مبتلا ہوں ۔ میری الجھن خواتین کے دائرۂ عمل سے متعلق ہے۔ میں کچھ سوالات آپ کی خدمت میں بھیج رہی ہوں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہ نمائی کرکے الجھن دور فرمائیں ۔
۱- جماعت کے بڑے اجتماعات میں ، جو علاقے، حلقے یا مرکز کی سطح پر منعقد ہوتے ہیں ، مردوں کے ساتھ خواتین بھی شریک ہوتی ہیں ۔ کیا ایسے مشترک اجتماعات میں کوئی عورت درسِ قرآن یا درسِ حدیث دے سکتی ہے، تقریر کرسکتی ہے یا مذاکرے میں حصہ لے سکتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ نماز باجماعت میں اگر امام سے کوئی غلطی ہوجائے اور اس کو متنبہ کرنا ہو تو مردوں کو سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صرف دستک دیں ، زبان سے کچھ نہ بولیں ۔ جب نماز جیسی عبادت میں عورتوں کا آواز نکالنا ممنوع ہے تو مردوں کے درمیان ان کا تقریر کرنا اور درس دینا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کا آواز کا بھی پردہ ہونا چاہیے، کیوں کہ اس میں بھی بہ ہر حال کشش ہوتی ہے۔
۲- میں اپنے شہر کی ناظمہ ہوں ۔ اس ذمّے داری کی وجہ سے مجھے امیر مقامی، ناظم شہر، ناظم علاقہ اور کچھ دیگر مردار کان سے خواتین کے سلسلے میں فون پر بات کرنی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے بھی فون آتے ہیں ۔ کیا میرا ان سے فون پر بات کرنا صحیح ہے؟ کہیں یہ شرعی حدود سے تجاوز تو نہیں ؟
۳- کہا جاتا ہے کہ عورت کا دائرۂ کار اس کا گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو‘‘ (الاحزاب: ۳۳) مولانا سید ابوا لاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی کتاب ’پردہ‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال فرمایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’عورت کو ایسے تمام فرائض سے سبک دوش کیا گیا ہے، جو بیرون خانہ کے امور سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔ مثلاً اس پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے، اس پر جہاد بھی فرض نہیں ، اس کے لیے جنازوں میں شرکت بھی ضروری نہیں ۔ بل کہ اس سے روکا گیا ہے۔ اس پر نماز باجماعت اور مسجدوں کی حاضری بھی لازم نہیں کی گئی، اگرچہ چند پابندیوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت ضرور دی گئی، لیکن اس کو پسند نہیں کیا گیا۔ اس کو محرم کے بغیر سفر کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ غرض ہر طریقے سے عورت کے گھر سے نکلنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور ا س کے لیے قانون ِ اسلامی میں پسندیدہ صورت یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہے۔‘‘ ان باتوں کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے خواتین کو اپنے گھروں میں ٹِک کر بیٹھنے کا حکم دیا ہے تو خواتین کا مقامی سطح کے ہفتے وار اور ماہانہ اجتماعات اور علاقے اور حلقے کی سطح کے اجتماعات میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنا کس حد تک درست ہے؟ اور وہ دعوتی کاموں میں کس حد تک سرگرم رہ سکتی ہیں ؟ کیا ان کا دیگر خواتین کی اصلاح کے لیے اور ان سے انفرادی ملاقاتوں کے لیے بار بار ان کے گھروں میں جانا صحیح ہے۔
حدیث کی روٗ سے عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور وہ اس کے دائرے میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔ گویا گھر سے باہر کی خواتین کے درمیان تبلیغ و اصلاح کی ذمے داری ہماری نہیں ہے، تو پھر ہم خواتین کو اپنے گھر سے باہر جاکر دیگر خواتین کو اکٹھا کرکے اجتماعات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
۴- میں نے ایم اے تک پڑھائی کی ہے۔ میرے شوہر چاہتے ہیں کہ آگے بھی پڑھائی جاری رکھوں یا ٹیچنگ کروں ۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے باہر تو نکلنا پڑے گا۔ بسا اوقات ان اداروں میں مخلوط تعلیم کا نظم ہوتا ہے۔ کیا ان اداروں کو جوائن کیا جاسکتا ہے؟ پردے کے اہتمام کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشش جائز ہے یا غیر ضروری ہے؟
۵- میں نے انٹر کرنے کے بعد جماعت کے ایک پرائمری اسکول میں دو سال ٹیچنگ کی۔ اس وقت تک مجھے دین کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں ۔ وہاں پڑھانے کے دوران اسکول کے پرنسپل، منیجر اور بعض دیگر افراد نے میری تربیت کی، مجھ میں دین کا شعور پیدا کیا اور میری زندگی کو تحریک سے جوڑدیا۔ ان لوگوں کی حیثیت میرے نزدیک معلم جیسی ہے۔ آج بھی میں اپنے دینی مسائل کا حل جاننے کے لیے ان حضرات سے مدد لیتی ہوں ۔ میں ان سبھی کے سامنے رو در رو بیٹھ کر بات کرتی ہوں ۔ اس موقع پر میں ساتر لباس میں تو ہوتی ہوں ، مگر چہرہ نہیں ڈھانپتی۔ یہ سبھی حضرات تحریک اسلامی کے رکن ہیں اور عمر دراز ہیں ۔ میری رہ نمائی فرمائیں کہ مجھے اسی طریقے پر رہنا چاہیے یا ان لوگوں سے ملنا جلنا ختم کردینا چاہیے؟
محترم! مجھے ڈر لگتا ہے کہ جن کاموں کو میں نیکی سمجھ کر کر رہی ہوں ، کہیں ان سے میرے گناہ تو نہیں بڑھ رہے ہیں ؟ میری آخرت تو نہیں خراب ہو رہی ہے؟ میں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی جس سے اللہ کے عائد کردہ حدود پامال ہوں ۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں ؟