حج بدل
کیا حج ِ بدل کوئی ایسا شخص کرسکتا ہے، جس نے خود پہلے حج نہ کیا ہو؟
کیا حج ِ بدل کوئی ایسا شخص کرسکتا ہے، جس نے خود پہلے حج نہ کیا ہو؟
عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ حج کے بعد حاجی گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ بہ طور دلیل یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو شخص اللہ کی خوش نودی کے لیے حج کرے اور (اثناے حج) فحش گوئی سے بچے اور نافرمانی نہ کرے تو وہ ایسا بے گناہ ہوکر لوٹتا ہے جیسے اس دن بے گناہ تھا، جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘ لیکن بعض کتابوں میں میں نے یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ حج ادا کرنے سے کبیرہ گناہ معاف نہیں ہوتے، ان کی سزا بہر حال مل کر رہے گی۔
اس تضاد کی وجہ سے میں الجھن کا شکار ہوگیا ہوں ۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔
میرے ملاقاتیوں میں بہت سے غیر مسلم بھی ہیں ۔ وہ عید، بقرعید اور دوسرے مواقع پر آتے رہتے ہیں ۔ امسال میں الحمد للہ حج پر جارہا ہوں ۔ واپسی پر وہ ملاقات کرنے اور مبارک باد دینے ضرور آئیں گے۔ بہ راہ کرم یہ بتائیں کہ کیا انھیں آب زمزم اور کھجور بہ طور تحفہ دیا جاسکتا ہے؟
برصغیر سے حج کے لیے سفر کرنے والوں میں اکثر عازمین پہلی مرتبہ سعودی عرب پہنچتے ہیں ۔ اتنے لمبے سفر کے بعد سب کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ مکہ مکرمہ کے ساتھ مدینہ منورہ کی زیارت اور مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے کا شرف بھی حاصل کرلیں ۔ اس لیے حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے چالیس روزہ سفر کے دوران مدینے میں بھی آٹھ، دس دن قیام کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں مسجد نبویؐ میں چالیس نمازیں پڑھنے کی فضیلت پر مشتمل ایک حدیث بیان کی جاتی ہے۔ اس حدیث کے پیش نظر ہر شخص مسجد نبویؐ میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ چالیس نمازیں پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی اصل کیا ہے؟ اگر یہ حدیث مستند اور صحیح ہے تو کیا ایسے موقعے پر اگر کسی شرعی عذر کی بنا پرکسی خاتون کی کوئی نماز رہ گئی تو وہ اس فضیلت کو کیسے حاصل کرے گی؟ چالیس نمازوں کی تکمیل کے لیے مدینے میں رکنے سے قیام اور دوسرے انتظامی مسائل پیدا ہوں گے۔
میاں بیوی نے حج کے لیے فارم بھرا تھا اور اس کی منظوری بھی آگئی تھی، لیکن اچانک شوہر کا انتقال ہوگیا۔ اب بیوی عدت میں ہے۔ کیا وہ اس حالت میں کسی محرم کے ساتھ حج کے لیے جاسکتی ہے؟
میری سالی (بیوی کی سگی بہن) جو بیوہ ہے، اس کا کوئی لڑکا بھی نہیں ہے، اس کے بھائی کا بھی کافی عرصے پہلے انتقال ہوچکا ہے، اس کی تمنا اور دلی خواہش فریضۂ حج ادا کرنے کی ہے، لیکن کسی محرم کا ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اب تک اداے حج سے محروم ہے۔ اس سال ہم میاں بیوی کا حج پر جانے کا ارادہ ہے۔ ابھی فارم بھرے جانے ہیں ۔ میں چاہتا ہو ں کہ اپنی سالی کو بھی اپنی بیوی کے ساتھ حج کے لیے لے جاؤں ۔ آپ سے استدعا ہے کہ بہ راہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بتانے کی مہربانی فرمائیں کہ کیا وہ ہمارے ساتھ حج کے لیے جاسکتی ہے؟
ہمارے یہاں بعض حضرات کہتےہیں کہ اگر کوئی شخص عمرہ کرلے تو اس پر حج فرض ہوجاتا ہے ۔ کیا یہ بات درست ہے؟
زید ہرلحاظ سے صاحبِ استطاعت ہے ۔ اس پر حج فرض ہے اوروہ سفرِ حج پر قادر بھی ہے، لیکن وہ اپنے عوض اپنی بیوی کو، جس پر حج فرض نہیں ہے ،اپنے پیسے سے محرم کے ذریعے حج کروانا چاہتا ہے ۔ کیا یہ درست ہے ؟
کیا طوافِ کعبہ اورسعی بین الصفا والمروہ کے لیے وضو ضروری ہے؟ اگر ہاں تو جس شخص کا وضو اس دوران ٹوٹ جائے وہ کیا کرے؟ کیا وضو کے بعد طواف یا سعی کو وہ از سرنو دہرائے گا یا جتنا کرچکا ہے اس کے آگے مکمل کرے گا؟
ایک صاحب شادی شدہ ہیں ۔ان کی بیوی معزز اورصاحبِ حیثیت گھرانے کی ہے، لیکن بعض اسباب سے وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں ۔وہ ایک مطلقہ عورت سے محبت کرتے ہیں اوراس سے شادی کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اگر ان کی بیوی کو اس کا علم ہوگیا تو وہ ان سے طلاق لے لے گی اور سیاسی اثر ورسوخ کی وجہ سے ان کو جھوٹے کیس میں پھنسا دے گی۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ خفیہ طریقے سے اس مطلقہ عورت سے نکاح کرلیں ۔ نہ اس کے ولی کو پتہ چل پائے،نہ گواہ ہوں ،نہ اعلان ہو۔ کیوں کہ گواہ اوراعلان ہونے کی صورت میں لوگوں کو معلوم ہوجائے گا اور ان کا معاملہ خفیہ نہیں رہ سکے گا، پھر وہ پہلی بیوی کی طرف سے مختلف مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔ کیا ان صاحب کے لیے ایسا کرنے کی رخصت ہے؟