عورت اور سفر حج
عورت کے مَحرم کے بغیر حج پر جانے کے بارے میں علماے کرام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔آپ براہِ کرم مختلف مذاہب کی تفصیل سے آگاہ فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کے نزدیک قابل ترجیح مسلک کون سا ہے؟
عورت کے مَحرم کے بغیر حج پر جانے کے بارے میں علماے کرام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔آپ براہِ کرم مختلف مذاہب کی تفصیل سے آگاہ فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کے نزدیک قابل ترجیح مسلک کون سا ہے؟
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے ذی الحجہ کی پانچویں تاریخ کو احرام توڑ کر خوب جماع کیا اورپانچویں دن کے بعد جب ہم عرفہ کے لیے روانہ ہوئے تو تَقْطُرُ مَذَاکِیْرُنَا الْمَنیِّ۔ اس حدیث کی وضاحت فرما کر میری پریشانی رفع فرمادیں ۔
یہاں (اسلامک کلچر سنٹر لندن میں ) چند انگریزلڑکیاں جمعہ کے روز آئی ہوئی تھیں ۔انھوں نے سوال کیا کہ مسلمان سنگ اسود کو کیوں چومتے ہیں ؟ وہ بھی تو ایک پتھر ہے جیسے دوسرے پتھر۔ اس طرح تو یہ بھی ہندوئوں ہی کی طرح بت پرستی ہوگئی، وہ سامنے بت رکھ کر پوجتے ہیں اور مسلمان اس کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتے ہیں ۔ ہم انھیں تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔براہِ کرم ہمیں اس کے متعلق کچھ بتائیں تاکہ پھر ایسا کوئی موقع آئے تو ہم معترضین کو سمجھا سکیں ۔
تفہیم القرآن جلد۲، صفحہ ۱۷۴(پر آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ)’’اس مقام پر یہ جان لینا فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ فتح مکہ کے بعد دور اسلامی کا پہلا حج ۸ہجری میں قدیم طریقے پر ہوا،پھر۹ ہجری میں دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر، اس کے بعد تیسرا حج۱۰ ہجری میں خالص اسلامی طریقے پر ہوا۔‘‘
۸ ہجری میں کون سے صحابہ حج کو تشریف لے گئے؟حج کی فرضیت کس سنہ میں ہوئی؟حج کی فرضیت کے ساتھ احکام نہ تھے؟ حضورﷺ نے عازمین حج کو کوئی ہدایات نہ دیں ؟ ۹ہجری میں صدیقؓ کی زیر قیادت اسلامی طریقے کو چھوڑ کر اپنے طریقے پر کیسے حج کیا؟ پھر حضور ﷺ نے صحابہ کو غیر اسلامی طریق پر حج کرنے میں کوئی تنبیہ نہ فرمائی؟ قدیم طریقے میں ننگے طواف ہوتا تھا۔ کیا صحابہؓ نے بھی ایسا کیا؟ ہر ایک جزیے کا تفصیلی جواب تحریر فرمادیں ۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’خطبات ‘ میں لکھا ہے:
’’ دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے اور وہاں اس ستون پر کنکریوں سے چاند ماری کی جاتی ہے جہاں تک اصحاب فیل کی فوجیں کعبہ ڈھانے کے لیے پہنچ گئی تھیں ۔‘‘(ص۲۵۱)
آگے مزید لکھا ہے:
’’دوسرے دن (حاجی) پتھر کے ان تین ستونوں پر باری باری کنکریوں سے ، پھر چاند ماری کرتا ہے جن کوجمرات کہتے ہیں اورجودر اصل اس ہاتھی والی فوج کی پسپائی اورتباہی کی یادگار میں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال عین حج کے مواقع پر اللہ کے گھر کو ڈھانے آئی تھی اور جسے اللہ کے حکم سے آسمانی چڑیوں نے کنکریاں مار مار کرتباہ کردیا تھا‘‘۔(ص۲۵۱،۲۵۲)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج میں رمی جمرات یعنی کنکریاں مارنا ہاتھی والی فوج کی پسپائی کی یادگار ہے ، جب کہ عام طور پر کنکریاں مارنے کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی سنت بتایا جاتا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب’خطبات‘ کے مضمون ’حج کے فائدے‘ میں مناسکِ حج کی تربیت بیان کی ہے۔انھوں نے لکھاہے
’’دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے ۔(وہاں بڑے جمرہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں ) پھر اسی جگہ قربانی کی جاتی ہے۔پھر وہاں سے کعبہ کارخ کیاجاتا ہے۔ طواف اور دورکعتوں سے فارغ ہوکر احرام کھل جاتاہے۔ جو کچھ حرام کیا گیا تھا وہ اب پھر حلال ہوجاتاہے اور اب حاجی کی زندگی پھر معمولی طورپر شروع ہوجاتی ہے۔‘‘(ص۲۵۱)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ حاجی منیٰ میں قربانی کرنے کے بعد احرام نہیں کھولے گا، بلکہ قربانی کے بعد حرم جاکر طواف کرے گا اور دورکعت نماز ادا کرے گا، اس کے بعد احرام کھولے گا، جب کہ ہمیں حج کے لیے جاتے وقت بتایا گیا تھا کہ قربانی کے بعد منیٰ ہی میں احرام کھول دینا ہے۔ چنانچہ سب کے ساتھ میں نے بھی ایسا ہی کیاتھا۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کون ساعمل صحیح ہے؟قربانی کے بعد منیٰ ہی میں احرام کھول دینا ،یا طواف کرنے اور دورکعت نماز پڑھنے کے بعد احرام کھولنا؟
مقیم شخص کے لیے حج تمتع‘ کے عنوان سے مذکورہ بالا جواب پر اشکال کرتے ہوئے ایک صاحب نے لکھا ہے:
’’سورہ البقرۃکی آیت ۱۹۶ میں میقات سے باہر رہنے والوں کو عمرہ اورحج ایک ہی سفر میں کرنے کی اجازت ہے ۔ یہ اجازت ان کے لیے نہیں ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب ہوتےہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسجد حرام کے قریب رہنے والے حج کے موسم یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی ۱۲،۱۳ تاریخ تک عمرہ نہیں کرسکتےاورنہیں کرنا چاہیے۔جوکوئی قریب رہنے والا موسم حج میں نیکی سمجھ کر عمرہ کرے گا غلطی کرے گا، اسی لیے آخر میں ہے : وَاتَّقُواللہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللہَ شَدِیْدُالْعِقَابِ’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سخت سز ا دینے والا ہے ‘‘۔ اگر یہ بات نہ ہوتو حج وعمرہ کے ذیل میں ’ شدیدالعقاب‘ پرآیت ختم ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔
مقامی لوگ حج ختم ہونے کے بعدآخر رمضان تک جب چاہیں عمرہ کرسکتے ہیں ، لیکن جیسے ہی شوال شروع ہو وہ عمرہ نہیں کرسکتے، وہ صرف باہر کے افراد ہی کریں گے۔
اگر کوئی مقامی فرد ایام حج میں عمرہ کرے تو اس نے غلطی کی ،چاہے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اگروہ حج کرے گا تو دم دینے والی رائے زیادہ قوی لگتی ہے ۔ یہ دم جنایت ہوگا، جب کہ باہر سے آنے والے عمرہ اورحج کرنے پر جوقربانی کرتے ہیں وہ دم شکر گردانا جائےگا۔
میقات سے باہر رہنے والا چاہے تو قِران کرے یا تمتع یا افراد حج ، لیکن میقات کےاندر رہنےوالا صرف حج افراد ہی کرسکتا ہے۔‘‘
میں جدہ میں رہتی ہوں ۔ میرے شوہر یہاں ملازمت کرتے ہیں ۔کچھ دنوں پہلے ہم نے عمرہ کیا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ امسال حج بھی کرلیں ۔لیکن یہاں بعض لوگوں نے اس سے منع کیا ۔ وہ کہتےہیں کہ مکہ مکرمہ سے قریب رہنے والے اگر عمرہ کرلیں توانہیں اس سال حج نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ انہیں حج تمتع کرنے سے روکا گیا ہے۔کیا یہ بات صحیح ہے؟
میری خالہ اورخالو دونوں نے امسال حج کرنے کا پروگرام بنایاتھا۔ان کی منظوری بھی آگئی تھی، لیکن اچانک خالو کا انتقال ہوگیا۔ابھی خالہ عدت میں ہیں ۔ کیا وہ حج کرنے کے لیے جاسکتی ہیں ؟
ایک شخص تعلیم کی غرض سے دوسرے ملک جاتا ہے۔اس کی تعلیم کی مدت چار سال ہے۔وہ گناہ سے بچنے کے لیے چار سال کی مدت کے لیے نکاح کرلیتا ہے۔ فریقین کے درمیان اس کا معاہدہ ہو جاتا ہے۔ چار سال کے بعد اس شخص کی تعلیم مکمل ہو جاتی ہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کو کچھ مال و جائداد اور رہائش دے کر طلاق دے دیتا ہے اور اپنے وطن روانہ ہو جاتا ہے۔کیا یہ طریقہ درست ہے؟اس سلسلے میں شریعت کیا کہتی ہے؟