اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں ماں کی اطاعت
اگر خدا ورسولﷺ کے احکام کے تحت پردہ اختیار کرنے میں کسی کی والدہ آ حائل ہو تو اس کے حکم کو ردّ کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟،جب کہ آپ کے پائوں کے نیچے جنت ہے۔
اگر خدا ورسولﷺ کے احکام کے تحت پردہ اختیار کرنے میں کسی کی والدہ آ حائل ہو تو اس کے حکم کو ردّ کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟،جب کہ آپ کے پائوں کے نیچے جنت ہے۔
میں اپنے حالات مختصراً پیش کرتا ہوں ۔مجھے بتلایئے کہ کون سا ایسا طریق ِکار اختیار کروں کہ میرے اسلام میں فرق نہ آئے۔({ FR 2066 })
والدین اُٹھتے بیٹھتے اصرار کررہے ہیں کہ[ نظامِ کفر کی] ملازمت پر واپس چلا جائوں ۔ بحالت موجودہ وہ نہ صرف اپنا بلکہ خدا کا نافرمان بھی گردانتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ صرف ایسے وقت پر والدین کی نافرمانی جائز ہے جب وہ یہ کہیں کہ خدا کو نہ مانو۔باقی تمام اُمور میں والدین کا حکم شرعی طور پر واجب التعمیل ہے۔ عن قریب وہ اعلان کرنے والے ہیں کہ نوکری پر چلاجائوں تو بہتر، ورنہ میرا ان سے کوئی تعلق نہ رہ سکے گا۔بس وہ اتنی رعایت مجھے دیتے ہیں کہ اگر میں مستقل طورپر ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتا تو کم از کم سال ڈیڑھ سال اور اختیار کیے رکھوں ، حتیٰ کہ میرے چھوٹے بھائی بی اے کرلیں اور میری خالی جگہ کو پُرکرسکیں ۔ اس سلسلے میں گناہ وہ اپنے سرلیتے ہیں ۔
میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں ،جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں ۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے،وہاں بحیثیت بیو ی کے بعض اُمور میں اس کو حقیر بھی کردیا ہے۔ مثلاًاس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کردیا ہے، حالاں کہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ واختیار میں رکھا گیا ہے،وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ واختیار میں کردیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کرسکتا ہے۔ان اُمور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کررہی ہوں ۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں ؟
کیا عورتیں لیڈی ڈاکٹر یا نرس یا معلمہ بن سکتی ہیں ؟جیسا کہ ہماری قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے قوم کو اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری عورتیں ان کاموں میں حصہ لے کر گزشتہ نقصانات اورپس ماندگی کی تلافی کریں ۔اسلامی نقطۂ نظر سے عورتیں کیا ان مشاغل کو اختیار کرسکتی ہیں ؟ اور آیا انھیں پردے میں رہ کر ہی انجام دینا ہوگا یا ضرورتاً پردے سے باہر بھی آسکتی ہیں ؟
کیا عورتیں چہر ہ کھول کر یا نقاب کے ساتھ جہاد میں شرکت کرسکتی ہیں ؟
کیا اس دور میں اسلامی حکومت خواتین کو مردوں کے برابر ،سیاسی ،معاشی ومعاشرتی حقوق ادا نہ کرے گی جب کہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اس نے تاریک ترین دور میں بھی عورت کو ایک مقام(status) عطا کیا؟ کیا آج خواتین کو مردوں کے برابر اپنے ورثے کا حصہ لینے کا حق دیا جاسکتا ہے؟ کیا ان کو اسکولوں ،کالجوں اور یونی ورسٹی میں مخلوط تعلیم یا مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے ملک وقوم کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کی اجازت نہ ہوگی؟فرض کیجیے اگر اسلامی حکومت خواتین کو برابر کا حق راے دہندگی دے اور وہ کثرت آرا سے وزارت و صدارت کے عہدوں کے لیے الیکشن لڑکر کام یاب ہوجائیں تو موجودہ بیسویں صدی میں بھی کیا ان کو منصب اعلیٰ کا حق اسلامی احکام کی رو سے نہیں مل سکتا جب کہ بہت سی مثالیں ایسی آج موجود ہیں ۔ مثلاً سیلون میں وزارت عظمیٰ ایک عورت کے پاس ہے،یا نیدر لینڈ میں ایک خاتون ہی حکمران اعلیٰ ہے، برطانیا پر ملکہ کی شہنشاہیت ہے، سفارتی حد تک جیسے عابدہ سلطانہ دختر نواب آف بھوپال رہ چکی ہیں اور اب بیگم رعنا لیاقت علی خان نیدرلینڈ میں سفیر ہیں ، یا دیگر جس طرح مسز وجے لکشمی پنڈت برطانیا میں ہائی کمشنر ہیں اور اقوام متحدہ کی صدر رہ چکی ہیں ۔ اور بھی مثالیں جیسے نور جہاں ، جھانسی کی رانی، رضیہ سلطانہ، حضرت محل زوجہ واجد علی شاہ جو کہ( pride of women) کہلاتی ہیں ، جنھوں نے انگریزوں کے خلاف لکھنو میں جنگ کی کمانڈ کی۔ اس طرح خواتین نے خود کو پورا اہل ثابت کردیا ہے۔ تو کیا اگر آج محترمہ فاطمہ جناح صدارت کا عہدہ سنبھال لیں تو اسلامی اصول پاکستان کے اسلامی نظام میں اس کی اجازت نہ دیں گے؟ کیا آج بھی خواتین کو ڈاکٹر، وکلا، مجسٹریٹ، جج، فوجی افسر یاپائلٹ وغیرہ بننے کی مطلق اجازت نہ ہو گی؟ خواتین کا یہ بھی کارنامہ کہ وہ نرسوں کی حیثیت سے کس طرح مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں ،قابل ذکر ہے۔خود اسلام کی پہلی جنگ میں خواتین نے مرہم پٹی کی، پانی پلایا اور حوصلے بلند کیے۔ تو کیا آج بھی اسلامی حکومت میں آدھی قوم کو مکانات کی چار دیواری میں مقید رکھا جائے گا؟
میں ایک سخت کش مکش میں مبتلا ہوں اور آپ کی راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔میں جماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دُور رہنے پر مجبور ہوں ۔والدین کا شدید اصرار ہے کہ میں ان کے پاس رہ کر کاروبار شروع کروں ۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے رہتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظر انداز کررہے ہو۔میں اس بارے میں ہمیشہ مشوش رہتا ہوں ۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے،دوسری طرف میں محسوس کرتا ہوں کہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے میرا جماعت کا کارکن بن کر رہنا ضروری ہے۔ آپ اس معاملے میں مجھے صحیح مشورہ دیں تاکہ میں افراط وتفریط سے بچ سکوں ۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف کی ہوگی۔لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل ہے تو پھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں ۔ میرے والد صاحب میری ہر بات کو مورد اعتراض بنالیتے ہیں اور میر ی طرف سے اگر بہت ہی نرمی کے ساتھ جواب عرض کیا جائے تو اسے بھی سننا گوارا نہیں فرماتے۔