زکوٰۃ اور عشر کے چنداحکام میں فرق

اگرچہ زکوٰۃ اورعشراصطلاح میں دوالگ الگ فرائض ہیں لیکن معنوی حیثیت سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔  مگر دونوں کے احکام میں جو زبردست فرق پایا جاتاہے وہ ناقابل فہم ہے۔ ہم ذیل میں دونوں کے درمیان فرق بیان کرتے ہیں  (۱)      زکوٰۃ کے وجوب کے لیے مقررہ … Read more

قرض اور زکوٰۃ

زید ایک شخص کوکچھ رقم امانت کے طورپررکھنے کودیتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اس بات کی اجازت بھی دیتا ہے کہ اس رقم کو کام میں لگایا جاسکتا ہے۔فقط اتنی شرط لگاتاہے کہ رقم محفوظ رہے اورجس کے پاس رقم امانت ہے وہ سال بسال اس کی زکوٰۃ دیتا رہے۔کیا شرعاً یہ شکل صحیح ہے؟اور … Read more

یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ کامال ہے

دریافت طلب یہ ہے کہ اگر کسی نادار اور مستحق زکوٰۃ کوزکوٰۃ کا مال دے دیاجائے اور اسے بتایانہ جائے کہ یہ زکوٰۃ کامال ہے تو کیا اس طرح زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟ بتانے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ زکوٰۃ کامال قبول نہ کرے۔

دین کو اپنے پاس موجود مال کی زکوٰۃ قرار دینا صحیح نہیں

اگر کوئی غریب مقروض لیا ہوا قرض واپس نہ کرسکتا ہو تو کیا وہ شخص جس کا قرض ہے اس رقم کو اپنے پاس موجود مال کی زکوٰۃ قراردے سکتا ہے؟مثلاً زید کے پچاس روپے بکرکے ذمے واجب الادا ہیں لیکن وہ ادا کرنے سے قاصرہے اور زید کے پاس جو مال ہے اس کی … Read more

کیا سادات کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟

فقہ حنفی کی روسے سادات کو زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے۔ لیکن بعض حنفی فقہاءکی طرف یہ رائے منسوب کی گئی ہے کہ وہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آل محمدؐ کو زکوٰۃ لینے کی اجازت دیتے ہیں اور اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ حضورؐ خمس میں سے ان … Read more

اموال ِزکوٰۃ کی تعیین احادیث نے کی ہے

ٓپ کی کتاب ’عشروزکوٰۃ اور سود کے چند مسائل‘ پڑھ کر ایک الجھن پیداہوئی ہے آپ اسے دور فرمائیں۔ کتاب کے صفحہ ۱۴پرہے ’’کوئی شخص ہزاروں روپے کے سچے موتی اور جواہرات کامالک ہوتو اس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے الا یہ کہ اس کی تجارت کررہاہو۔‘‘ اب یہ بات ذہن میں کھٹک رہی ہے کہ … Read more

کیا زکوٰۃ کی سرمایہ کاری جائز ہے؟

نگرانی کے لیے ماہر، با صلاحیت، تجربہ کار اور ایمان دار افراد کی خدمات حاصل کی جائیں۔ بہتر ہے کہ سرمایہ کاری ایک سے زیادہ منصوبوں میں کی جائے، تاکہ کسی منصوبے میں ممکنہ خسارہ کا اثر دیگر منصوبوں پر نہ پڑے۔

رقمِ زکوٰۃ سے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائی

ہماری سوسائٹی کے تحت صوبے کے مختلف شہروں ، قصبات اور دیہاتوں میں تعلیمی ادارے چلتے ہیں ۔ اگرچہ طلبہ سے فیس لی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود بیش تر اداروں میں ماہانہ و سالانہ خسارہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تعمیر و مرمت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ اصحاب ِ خیر سے تعاون کی اپیل کی جاتی ہے تو جو رقمیں حاصل ہوتی ہیں وہ بالعموم زکوٰۃ کی ہوتی ہیں ۔ اگر اس رقم سے خسارہ پورا نہ کیا جائے اور اسے تعمیر و مرمت میں نہ لگایا جائے تو پھر کوئی اور صورت نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ ادارے ختم یا بے اثر ہوجائیں ۔ یہ صورت حال اس کے باوجود ہے کہ نادار اور غریب طلبہ کی فیس وغیرہ زکوٰۃ کی مد سے ادا کی جاتی ہے۔
بعض حضرات اس پر اعتراض کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی رقم اساتذہ کی تنخواہوں اور تعمیرات و مرمت پر صرف نہیں کی جاسکتی۔ بہ راہ کرم اس سلسلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں کہ کیا کیا جائے؟

زکوٰۃ کے چند مسائل

میں ایک فیکٹری کا مالک ہوں ۔ اس میں بہت سے ملازمین کام کرتے ہیں ۔ میں ہر سال رمضان میں اپنی پورے سال کی آمدنی کا حساب کرکے زکوٰۃ نکالتا ہوں ۔ زکوٰۃ کی ادائی کے بارے میں میری چند الجھنیں ہیں ۔ بہ راہِ کرم شریعت کی روشنی میں انھیں دور فرمائیں :
(۱) فیکٹری میں کام کرنے والے ملازمین کے بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ، شادی اور دیگر مواقع پر میں ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ ان کی کچھ مالی مدد کی جائے۔ کیا انھیں زکوٰۃ کی مد سے کچھ رقم دی جاسکتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ بعض ملازمین ایسے بھی ہیں کہ اگر انھیں رقم دیتے وقت بتا دیا جائے کہ یہ زکوٰۃ کا مال ہے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔ کیا انھیں بغیر اس کی صراحت کے کچھ رقم دی جاسکتی ہے؟ کیا زکوٰۃ کی ادائی درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جسے دی جائے اسے صاف لفظوں میں یہ بھی بتایا جائے کہ یہ زکوٰۃ ہے؟
(۲) کیا جتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اسے فوراً یک مشت ادا کردینا ضروری ہے؟ یا اسے الگ رکھ کر اس میں سے تھوڑا تھوڑا بہ وقت ِ ضرورت خرچ کیا جاسکتا ہے؟ میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ زکوٰۃ کی رقم الگ کرکے رکھ لوں اور پورے سال اس میں سے تھوڑی تھوڑی رقم ضرورت مندوں کو دیتا رہوں ۔ لیکن مجھے شبہ ہے کہ جب تک زکوٰۃ کی رقم میری تحویل میں رہے گی میں اس کی عدم ادائی کا گناہ گار ہوں گا۔
(۳) بعض ملازمین قرض مانگتے ہیں ، مگر پھر اسے ادا نہیں کرتے۔ بارہا تقاضوں کے باوجود ان سے قرض کی رقم واپس نہیں مل پاتی۔ کیا رقم زکوٰۃ کو اس میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے، کہ میں ان ملازمین سے قرض مانگنا چھوڑدوں اور اس کے بہ قدر رقم واجب الادا زکوٰۃ میں سے روک لوں ؟

زکوٰۃ کے سلسلے میں چند سوالات ارسال ِ خدمت ہیں ، گزارش ہے کہ ان کے تشفی بخش جواب کی زحمت فرمائیں :
(۱) کیا زکوٰۃ اپنے غریب قریبی رشتے داروں (سگے بھائی، چچا وغیرہ) کو دی جاسکتی ہے؟
(۲) کیا اپنی کل زکوٰۃ کسی ایک شخص کو دی جاسکتی ہے؟
(۳) ایک شخص خود غریب ہے، لیکن اس کی بیوی کے پاس اتنے زیور ہیں کہ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
(۴) عورت سروس کرتی ہے، مال دار ہے، صاحب ِ نصاب ہے، لیکن اس کا شوہر غریب اور بے روزگار ہے۔ کیا عورت اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر کو دے سکتی ہے؟