زکاۃ کی شرح میں تبدیلی

زکاۃ سے متعلق ایک صاحب نے فرمایا کہ شرح میں حالات اور زمانے کی مناسبت سے تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ حضوراکرمﷺ نے اپنے زمانے کے لحاظ سے ڈھائی فی صد شرح مناسب تصور فرمائی تھی، اب اگر اسلامی ریاست چاہے تو حالات کی مناسبت سے اُسے گھٹا یا بڑھا سکتی ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ قرآن پاک میں زکاۃ پر جابجا گفتگوآتی ہے لیکن شرح کا کہیں ذکرنہیں کیا گیا، اگر کوئی خاص شرح لازمی ہوتی تو اُسے ضرو ربیان کیا جاتا۔ اس کے برعکس میرا دعویٰ یہ تھا کہ حضورﷺ کے احکام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اور ہم ان میں تبدیلی کرنے کے مجازنہیں ہیں ۔ رہی صاحب موصوف کی دلیل، تو وہ کل یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نمازیں اتنی نہ ہوں بلکہ اتنی ہوں ، اور یوں نہ پڑھی جائیں ، یوں پڑھی جائیں جیسا کہ ان کے نزدیک حالات اور زمانے کا اقتضا ہو۔پھر تو رسول خدؐا کے احکام، احکام نہ ہوئے،کھیل ہوگئے۔ دوسری چیز جو میں نے کہی تھی،وہ یہ تھی کہ اگر اسلامی ریاست کو زیادہ ضروریات درپیش ہوں تو وہ حدیث اِنَّ فیِ الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّکاۃِ({ FR 2048 }) کی رو سے مزید رقوم وصول کرسکتی ہے۔خود یہی حدیث زکاۃ کی شرح کے مستقل ہونے پر اشارتاً دلالت بھی کرتی ہے۔ اگر زکاۃ کی شرح بدلی جاسکتی تو اس حدیث کی ضرورت ہی کیا تھی؟لیکن وہ صاحب اپنے مؤقف کی صداقت پر مصر ہیں ۔براہِ کرم آپ ہی اس معاملے میں وضاحت فرمادیجیے۔

زکاۃ کے لیے مہینہ کا تقرر

زکاۃ قمری سال کے حساب سے واجب ہونی چاہیے یا شمسی سال کے حساب سے؟ کیا زکاۃ کی تشخیص اور وصولی کے لیے کوئی مہینہ مقرر ہونا چاہیے؟

نقدی، سونا، چاندی اورجواہرات پر زکاۃ

کن کن اثاثوں اور چیزوں پر اور موجودہ سماجی حالت کے پیش نظر کن کن حالات میں زکاۃواجب ہوتی ہے؟بالخصوص نقدی، سونا،چاندی،زیورات او رجواہرات کے بارے میں زکاۃ کی کیا صورت ہوگی؟

کرنسی نوٹوں (سکوں ) پر زکاۃ

کیا دھات کے سکوں (جن میں طلائی، نقرئی اور دوسری دھاتوں کے سکے شامل ہیں ) اور کاغذی سکوں پر بھی زکاة واجب ہے؟

امانتوں اورقرضوں پر زکاۃ

کیا بنکوں (banks) میں بقایا امانت،بنک یا کسی دوسری جگہ حفاظت میں رکھی ہوئی چیزیں ،لیے ہوئے قرضے،مرہونہ جائداد اور متنازعہ فیہ جائداد اور ایسی جائداد جو قابل ارجاعِ نالش ہو،پر بھی زکوٰة واجب ہے؟