آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’جو بھی اس حکومت کے اصول کو تسلیم کرلے وہ اس کے چلانے میں حصے دار ہوسکتا ہے،خواہ وہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ‘‘({ FR 2278 }) براہ کر م اس کی توضیح کیجیے کہ ایک ہندو،ہندو رہتے ہوئے بھی کیا آپ کی حکومت کے اُصولوں پر ایمان لا کر اسے چلانے میں شریک ہوسکتا ہے؟

امریکا سے میرے ایک دوست نے یہ خط لکھا ہے کہ وہاں کے عرب اور مسلمان طلبہ آپ سے ان دو سوالات کے جوابات چاہتے ہیں ۔ سوالات یہ ہیں :
۱- کیا اسلامی ملکوں کو دوسرے مذاہب کے مبلغوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ خاص طور پر عیسائی مشنریوں پر؟ اس بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
۲-اگر پابندی لگانا دینی طور پر لازم ہے تو عیسائی بھی اپنے ممالک میں مسلمان مبلغوں پر پابندی لگا دیں گے۔ اس صورت میں اسلام کا پیغام عالم انسانیت تک کیسے پہنچایا جا سکتا ہے؟

مسجدِ اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے کھدائی

مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے اسرائیل اب تک کھدائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے مسجد کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس سلسلے میں رابطۂ عالمِ اسلامی کا بیان آپ نے دیکھا ہوگا۔ اس بارے میں آپ بھی اظہارِ خیال فرمائیں ۔

امریکا کی اسرائیل کی غیر اخلاقی حمایت

اسرائیلی وزیراعظم بیگن نے اپنے دورۂ امریکا کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیر قانونی یہودی بستیوں کو دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر قانونی حیثیت دی ہے۔ مزید برآں بیگن کی حکومت تین اور نئی بستیاں مغربی کنارے پر بسا رہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردّعمل کیا ہے؟

اسرائیلی ریاست کے حق میں ایک عجیب استدلال

’’سورۂ بنی اسرائیل آیت ۱۰۴ کے متعلق صدق جدید (لکھنؤ) میں مولانا عبد الماجد دریا بادی نے ’’سچی باتیں ‘‘ کے زیر عنوان یہ تشریح کی ہے کہ اس میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ سے مراد یَومُ الٰاخِرَۃِ نہیں ہے بلکہ قیامت کے قریب ایک وقت موعود ہے اورجِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا سے مراد بنی اسرائیل کے مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا ہے۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ ’’مطلب واضح ہے۔ یعنی اسرائیلیوں کو بعدِ واقعۂ فرعون ہی خبر دے دی گئی تھی کہ اب تو تم آزاد ہو، دنیا میں جہاں چاہو رہو بسو، البتہ جب زمانہ قربِ قیامت کا آجائے گا تو ہم تم کو مختلف سمتوں سے، مختلف ملکوں سے، مختلف زبانیں بولتے ہوئے، مختلف وضع و لباس اختیار کیے ہوئے، سب کو ایک جگہ جمع کر دیں گے۔ اور وہ جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے بجز ان کے قدیم وطن ملک فلسطین کے۔ آج جوارضِ فلسطین میں یہود کا اجتماع ہر ہر ملک سے ہو رہا ہے کیا یہ ایسی غیبی پیش خبری کا ظہور نہیں ؟‘‘ یہ نتیجہ جو مولانا نے اس آیت سے نکالا ہے، مجھے ڈر ہے کہ یہ فلسطین کے متعلق عام جذبۂ جہاد کو ٹھنڈا کردے گا۔ کیونکہ اس کو مان لینے کے بعد تو فلسطین میں اسرائیلی ریاست کا قیام عین منشاے خداوندی سمجھا جائے گا۔

بہت دنوں سے ارادہ تھا کہ عریضہ ارسال خدمت کروں ۔چند ضروری امور کے بارے میں عرض کرنا چاہتا تھا مگر فرصت نہ ملی کہ اطمینان خاطر کے ساتھ لکھ سکوں ۔ایک نئی بات کی وجہ سے اب فوراًخط لکھا۔ پرسوں تازہ پرچہ ’’ترجمان القرآن‘‘کا موصول ہوا۔ میرا معمول یہ ہے کہ رسالہ وصول کرتے ہی پہلی نشست میں تقریباًسارا رسالہ ختم کردیتا ہوں ۔اس دفعہ’’رسائل ومسائل‘‘({ FR 2283 }) میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے،اس کو پڑھ کر طبیعت متاثر ہوئی اور دل کا شدید تقاضا ہوا کہ اس بارے میں آپ کی خدمت میں ضرور عریضہ لکھوں اور اپنے تاثرات کا اظہار کروں ۔
میں حضرت مولانا مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا شاگرد اور مستر شد ہوں ۔اس عام تعلق کے علاوہ بعض وجوہات کی بِنا پر حضرتؒ سے خصوصی ربط وتعلق بھی ہے۔ اور موجودہ دور کے تمام علما ومشائخ میں سب سے بڑھ کر مجھے عقیدت حضرت کے ساتھ ہے اور میں نے جو کمالات اور علمی وعملی فضائل کا ادراک ان کو دیکھ کر اور آزما کر کیا ہے،اب تک او رکہیں سے نہیں ہوا۔ لیکن اس قدر شدید تعلق اور عقیدت واحترام کا جذبہ رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کے بارے میں حضرت شیخ کی جو راے تھی،چوں کہ میرا ایمانی ضمیر اس پر مطمئن نہیں تھا اس لیے میں نے حضرت کی راے قبول نہیں کی۔ اگرچہ اس سے ان کی عقیدت میں بھی کوئی فرق اپنے اندر نہ آنے دیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ شرعاً میرے لیے ضروری نہ تھا کہ اگرچہ مجھے شرح صدر نہ بھی ہوا ہو اور بات بالکل سمجھ میں نہ آتی ہو لیکن پھر بھی ضرور حضرت کی یہ راے میں مان لوں اور جماعت اسلامی یا اس کے بارے میں وہ راے رکھوں جو خود حضرت رکھتے تھے۔چوں کہ جماعت اسلامی کے بارے میں میرا رویہ اپنی پوری جماعت مسلک دیو بند کے خلاف رہا، اس لیے بعض لوگوں نے اس کو اپنے اساتذہ سے بغاوت سمجھا اور اسی جرم میں آج تک میں بعض کے ہاں مغضوب ومعتوب ہوں ، اور بعض کے ہاں ملوم و مخزول۔ کوئی احسان جتانا مقصود نہیں ، محض اظہار واقعہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ محض اس ’’جرم‘‘ پر مجھے کافی دنیوی اور مادّی خسارہ بھی برداشت کرنا پڑا اور بہت سے فوائد ومنافع کے تمتع سے محروم رہا ہوں ۔ اور مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں ، کیوں کہ میں نے جو روش اب تک اختیار کی ہے، خالص اﷲ تعالیٰ کی خاطر کی ہے اور میں اس کو ایمانی تقاضا سمجھتا ہوں ۔
بہرحال یہ تو ایک تمہید تھی۔ مقصد یہ ہے کہ میں جو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ،یہ کسی گروہی عصبیت کی بِنا پر نہیں بلکہ میں خود دینی تقاضا اور خیر خواہی سمجھ کر یہ چند سطور لکھ رہا ہوں ۔کچھ عرصہ قبل بھی ترجمان القرآن میں حضرت مدنی کی کتاب’’نقش حیات‘‘ کی ایک عبارت کے بارے میں آپ سے کسی نے سوال کیا تھا اور آپ نے اس کے جواب میں جو لکھا تھا،اس میں کافی تلخی اور تیزی وتندی پائی جاتی تھی۔ اوّل تو اس سوال کا جواب آپ کو دینا نہیں چاہیے تھا۔ سائل سے آپ یہ کہہ سکتے تھے، جیسا کہ ابتدائی جواب میں لکھا بھی گیا تھا کہ عبارت کا مطلب خود مولانا سے پو چھیے۔ان کی عبارت ہے وہ خود اس کی تشریح کردیں ۔ لیکن آپ نے اپنی طرف سے خوا ہ مخواہ بلا ضرورت سخت کلمات لکھ دیے۔ میں نے وہ جواب پڑھا تو مجھے بھی مناسب معلوم نہ ہوا، مگر مجھے آپ سے بھی تعلق وعقیدت ہے اس لیے اس کی توجیہ وتأویل کی اور اپنے تأثر کو دبا دیا۔لیکن انھی ایام میں مجھے معلوم ہوا کہ بہت سے اہل علم جو جماعت کے ساتھ غیر رسمی طور سے وابستہ تھے اور بہت کام بھی کیا کرتے تھے ،اس طرز جواب پر سخت ناراض ہوگئے۔ان کی راے آپ کے بارے میں بدلنے لگی اور انھوں نے جماعت کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ مجھ سے بھی انھوں نے گفتگو کی، بلکہ مجھے مجبور کیا کہ میں آپ سے اس سلسلے میں خط وکتابت کروں کہ آپ یہ بالکل بلا ضرورت اس قدر دل آزاری کے کلمات کیوں شائع فرماتے ہیں ۔ مگر میں نے اس وقت سکوت اختیا رکیا۔ تازہ پرچے میں پھر اسی بات کو ذرا اس سے بھی زیادہ تیزالفاظ میں دہرایا ہے۔ حضرت مدنی ؒ کی وفات کے بعد پھر ایسی باتیں تازہ کرنا اور اس انداز کے ساتھ لکھنا تو اور بھی نامناسب ہے۔عام طور سے لوگ ایسا کیا کرتے ہیں ، اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ مولوی صاحبان اور دوسرے لوگ میرے بارے میں اور جماعت کے بارے میں ایسا ہی طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن آپ کو ایسے امور میں دوسروں کی تقلید تو نہیں کرنی چاہیے۔ میں واقعے میں سمجھتا ہوں کہ ایک داعی حق ہونے کی حیثیت سے آپ کا مرتبہ بہت بلندہے اور یہ انداز ِتحریر آپ کی شان سے بہت ہی فرو تر ہے۔ اگر اس تحریر پر آپ کا نام نہ ہوتا تو میں تو اپنے ذوق کے مطابق یہ کبھی یقین نہ کرتا کہ آپ اس سطح پرآسکتے ہیں ۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کسی نے یہ سوال آپ کے پاس بھیجا تو آپ کو اس کا جواب دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔اگر مستفسر کو یہ افسوس ہے کہ’’نقش حیات‘‘ کی تصریحات اور مولانا کے اس جواب میں کوئی مطابقت نہیں تو اپنے اس افسوس کے ازالے کے لیے آخر وہ آپ سے کیوں خط وکتابت کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔یا تو وہ حضرت کی حیات میں ان سے خط وکتابت کرتے، یا ان کی وفات کے بعد ان کے کسی جانشین، تلمیذ خاص یا کسی اور متعلق سے پوچھ لیتے۔مولانا مرحوم کے ساتھ تو آپ کا کوئی تعلق نہیں تھا کہ ان کی متعارض عبارات کی تطبیق کی ذمہ داری آپ پر پڑتی ہے اور آپ خواہ مخواہ جواب دہ ہیں ۔ میں تو آپ پر اس کی کوئی بدگمانی نہیں کرتا، لیکن یہاں بعض لوگوں نے اس راے کا اظہار کیا کہ یہ مستفسر بھی بالکل فرضی ہے تاکہ اس طریقے سے اسی قسم کے جواب کی اشاعت کا موقع مہیا کردیا جائے۔
مولانا مرحوم کی عبارت سے جو نتائج آپ نے اخذ کیے ہیں اور پھر ان پر تنقید کی ہے، میرے خیال میں آپ نے اس میں بھی اپنے بلند مقام سے اتر کر گفتگو کی ہے۔ عام علما اگر آپ کی عبارات کے ساتھ یہی طریقہ برتتے ہیں تو جائز طور پر وجہ شکایت ہوتی ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس پر احتجاج کیا جائے۔
اس لیے میں آپ سے بھی شکایت کو جائزاور احتجاج کو تقاضاے انصاف سمجھتا ہوں ۔یہ جواب شائع کرکے واقعہ یہ ہے کہ آپ نے دینی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔اقامت دین کی منزل قریب لانے میں بھی اس کا کوئی دخل نہیں بلکہ اس سے سیکڑوں نہیں ہزاروں ایسے اشخاص کی دل آزاری ہوئی جو آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی جدوجہد کو ایک دینی جدوجہد سمجھ کر نظریہ یا عمل کے اعتبار سے آپ کے شریک کار ہیں ۔ خواہ آپ اسے اندھی عقیدت وتقلید کہیں یا کچھ اور، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت مدنی ؒ کی محبت و عقیدت تمام علما اور دین دار طبقے کے سویداے قلب میں جاگزین ہے۔ان کی کسی راے یا فتویٰ کو ممکن ہے بعض حضرات کسی وجہ سے قبول نہ کریں ، لیکن ان کی شان میں اگر ایسے کلمات کہے یا لکھے جائیں جن سے تنقیص وتوہین ہوتی ہو تو ان کو برداشت کرنا بڑا مشکل ہے۔پس ان کی وفات کے بعد جن باتوں کو چھیڑنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں اور ان کو چھیڑنے اور شائع کرنے سے دین کا ذرّہ برابر فائدہ نہ ہورہا ہو تو خواہ مخواہ کے لیے ایک نیا میدان جنگ کیوں گرم کردیا جائے۔
موجودہ نازک حالات میں آنے والے انتخابات کی اہمیت کو محسوس فرما کر آپ نے بھی الاہم فالاہم کے اصول پر اور حکمت عملی سے کام لے کر دوسرے بہت سے امور میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی ہے اور ایسا کرنا بھی چاہیے تھا، تو کیا یہ حکمت عملی میں شامل نہیں ہوسکتا کہ ان ایام میں علماے کرام کو بالکل نہ چھیڑا جائے، خواہ ان میں سے بعض تجاوز بھی کرجائیں لیکن کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ حضرات کا تمام چھوٹے بڑے الزامات کے مقابلے میں سکوت اختیار کرنا اورمَرُّوا کِرامًاپر عامل بن جانا، دین کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے اور اسی میں جماعت کا وقار بھی ہے۔ بات بہت طویل ہوگئی،مقصد آپ مختصر اشارے سے بھی سمجھ سکتے تھے۔آپ ضرور اس بات پر غور فرما کر اس کا تدارک کریں اور اس کے مضر اثرات کو کسی احسن طریقے سے زائل کرنے کی کوشش کریں ۔آپ کے بارے میں جو کچھ علما اعتراضات کررہے ہیں ،ہم کو تو شب وروز ان کی جواب دہی کرنی پڑتی ہے۔ میں تو رسمی طور سے متعلق نہ ہونے کے باوجود لوگوں کے خیال میں ’’پکا مودودی‘‘ ہوں ۔ میں ان اعتراضات کی مدافعت کرتا رہا ہوں ۔ لیکن اس تازہ تحریر پر کوئی اعتراض کرے تو میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ، او رپھر آپ کے بارے میں کچھ کہا جائے،اس کی برداشت بھی مشکل سے ہوتی ہے کیوں کہ میں سمجھتا ہوں ،اس کا اثر تحریک پر اور اس واسطے سے اقامت دین کے فریضے پر پڑ جاتا ہے۔ آپ کا بہت ساقیمتی وقت اس پریشان گوئی میں خرچ کردیا۔ مگر خدا کرے اس کا نتیجہ کوئی اچھا نکلے۔

اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت

مولانا حسین احمد صاحب مدنی مرحوم کی تصنیف’’نقش حیات‘‘ کی بعض قابل اعتراض عبارتوں کے بارے میں آپ سے پہلے خط وکتابت ہوئی تھی۔اس کے بعد میں نے مولانا مرحوم کو بعض دوسری عبارتوں کی طرف توجہ دلائی تھی اور انھوں نے وعدہ فرمالیا تھا کہ وہ آئندہ اڈیشن میں قابل اعتراض عبارتوں کو یا تو بالکل تبدیل فرمادیں گے یا اس میں ایسی ترمیم فرمائیں گے کہ کسی کو ان کی طرف غیر اسلامی نظریات کے منسوب کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔مولانا کا جواب اس سلسلے میں درج ذیل ہے:
’’یہ اعتراض کہ حضرت سیّد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کا ارادہ کرنے والا اور صرف انگریزوں کانکالنے والا میں قرار دیتا ہوں ،بالکل خلاف واقعہ اور تصریحات سے روگردانی ہے۔بہرحال یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ، اور اگر بالفرض کوئی عبارت ایسی ہے جس کی دلالت مطابقی یہی ہے،دوسری توجیہ اس میں نہیں ہوسکتی، تو وہ غلط ہے۔ ہندستان کی حکومت کے شرم ناک کارناموں سے مجھے انکار نہیں ،پھر میں کس طرح اس کو دارالاسلام قرار دے سکتا ہوں ؟لیکن فرقہ وارانہ حکومت اور سیکولر اسٹیٹ کے درمیان بھی تو ایسی صورتیں ہیں جن کو اسلام قبول کرسکتاہے۔مغلیہ حکومت کو دیکھیے اور غور فرمایے۔‘‘
مولانا مرحوم کے جواب سے اس بات کی خوشی ضرور ہوئی کہ حضرت مولانا دارالکفر کو دارالاسلام نہیں سمجھتے، مگر اس کا افسوس بھی ہوا کہ میں ’’نقش حیات‘‘ کی تصریحات اور مولانا کے اس جواب میں کوئی مطابقت نہیں پاتا۔ میں اس سلسلے میں ابھی مزید خط وکتابت کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔

دارالاسلام کی ایک نئی تعریف

دارالکفر، دارالحرب اور دارالاسلام کی صحیح تعریف کیا ہے؟دارالکفراور دارالاسلام میں کس چیز کو ہم اصلی اور بنیادی قرار دے سکتے ہیں ؟ مجھے اس مسئلے میں تردّد مولانا حسین احمد صاحب مدنی ؒ کی حسب ذیل عبارت سے ہوا ہے؟
’’اگر کسی ملک میں اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی ودینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو، تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب ({ FR 2280 }) کے نزدیک بے شبہہ دارالاسلام ہوگا اور ازروے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں ۔ ‘‘ ({ FR 2281 })
آپ اس مسئلے میں میری راہ نمائی فرمائیں ۔

دستور کی تنسیخ کی صورت میں دارالاسلام اور دارالحرب کی بحث

جب سابق دستوریہ نے قرار داد مقاصد پاس کی تھی تب جماعت اسلامی نے پاکستان کو ’’دارالاسلام‘‘ تسلیم کیا تھا ۔اب جب کہ گورنر جنرل صاحب بہادر نے دستوریہ کو بمع اپنی تمام قرار دادوں اور نامکمل آئین کے ختم کردیا ہے،موجودہ دور میں آپ کے نزدیک پاکستان دارالاسلام ہے یا دارالحرب؟

کیا اسلامی ملک میں ان مغربی مستشرقین،غیر مسلم اسکالرز او رپروفیسروں کو تعلیم یا تقریر کے لیے مدعو کیا جاسکتا ہے جنھوں نے اپنے نقطۂ نظر سے اسلام کے موضوعات پر کتابیں لکھتے ہوئے نہ صرف اسلام پر بے جا تنقیدی تبصرے کیے ہیں ، بلکہ عمداً یا کم علمی وتعصب سے اسلامی تاریخ لکھنے میں حضور اکرم ﷺ، اہل بیت، خلفاے راشدین، صحابۂ کرامؓ وائمۂ کرام (جن پر اسلام اور مسلمانوں کو فخر ہے) کی شان میں نازیبا فقرات لکھ کر ہدف ملامت بنایا ہے۔مثلاً امریکی و برطانوی قابل ترین پروفیسروں کی نظر ثانی شدہ انسائی کلو پیڈیا برٹانیکا میں بھی دیگر اعتراضات کے علاوہ رسول مقبو ل کی ازواج مطہراتؓ کو (concubines)(لونڈیاں ) لکھا ہے۔ ان میں سے اکثر کے یہاں آکر لیکچر اور خطبات دینے اور ان کی تشہیر کرنے پر کیا اسلامی حکومت بالکل پابندی عائد نہ کردے گی؟یا ان کتابوں اور زہر آلودہ لٹریچر کی ہماری لائبریریوں میں موجودگی گوارا کی جاسکتی ہے؟حکومت ان کے جوابات وتردید شائع کرنے ،ان کی تصحیح کرانے یا ان سے رجوع کرانے کے لیے کیا اقدام کرسکتی ہے؟