مطالبۂ پاکستان اسلامی نقطۂ نظر سے

ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلمان آدم ؈ کی خلافت ِارضی کا وارث ہے۔مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اﷲ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسروں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔اس لیے اس کا فطری نصب العین یہ قرار پاتا ہے کہ سارے عالم کو قانونِ الٰہیہ کے آگے مفتوح کر دے۔
لیکن مسٹر جناح اور ہمارے دوسرے مسلم لیگی بھائی پاکستان چاہتے ہیں ۔ہندستان کی زمین کا ایک گوشہ!… تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلما ن چین کی زندگی گزار سکیں ۔کیا خالص دینی نقطۂ نظر سے یہ قابلِ اعتراض نہیں ؟
یہودی قوم مقہور ومغضوب قوم ہے۔ اﷲ پاک نے اس پر زمین تنگ کردی ہے اور ہر چند کہ اس قوم میں دنیا کے بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں لیکن ان کے قبضے میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔آج وہ اپنا قومی وطن بنانے کے لیے کبھی انگریزوں سے بھیک مانگتے ہیں اور کبھی امریکا والوں سے۔
میرے خیال میں مسلمان… یا بالفاظِ دیگر مسلم لیگ بھی یہی کررہی ہے۔وہ یہودیوں کی طرح پاکستان کی بھیک کبھی ہندوئوں سے اور کبھی انگریزوں سے مانگتی پھر رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ ایک مقہور اور مغضوب قوم کی پیروی نہیں ہے ؟اور کیا ایک مقہور ومغضوب قوم کی پیروی مسلمانوں کو بھی اسی صف میں لاکھڑا نہ کردے گی؟

خروج کرنے والوں کا مساجد میں پناہ لینا

اگر خروج کرنے والے مساجد یا دوسرے مقدس مقامات(حرم اور کعبہ) میں پناہ گزیں ہوں تو ایسی صورت میں اسلامی ریاست کا ایسے لوگوں کے ساتھ کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟

خروج کے مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ کا مسلک

’’مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک‘‘({ FR 2251 })کی جو کچھ تشریح آپ نے ترجمان القرآن میں پیش کی ہے اس ضمن میں بعض واقعات جو بعض کتابوں کے حوالہ سے نقل کئے گئے ہیں افسوس ہے کہ ان کے ساتھ اتفاق کرنا مشکل ہے۔ بعض واقعات جس انداز سے پیش کئے گئے ہیں اس سے تو امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے بارے میں قارئین ترجمان القرآن بہت بڑی غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں ۔ بلکہ امام کے مسلک میں انھیں کھلا ہوا تضاد معلوم ہوسکتا ہے اگر انھوں نے مسلک امام کے متعلق کچھ فقہی معلومات حاصل کی ہوں ۔ سردست میں ایک واقعہ کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں جو متعلقہ مسئلہ کی قسط دوم میں بیان کیا گیا ہے اور جس کا حوالہ ابن الاثیر اور کردری کے علاوہ المبسوط ج۱۰،ص ۱۲۹پر دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ اہل موصل کی بغادت سے متعلق ہے۔ اس کو آپ نے ایسے انداز سے پیش کیا ہے جس سے ایک قاری بجز اس کے کہ اس کو مسلمان رعایا کی بغاوت سے متعلق سمجھے، دوسراکوئی مطلب نہیں لے سکتا حالانکہ یہ واقعہ مبسوط کی تصریح کے مطابق مشرکین کی بغاوت سے متعلق ہے جو موصل کے رہنے والے تھے اور جن کے ساتھ ’’دوانیقی‘‘({ FR 2252 }) نے صلح کی تھی۔ اس واقعہ میں آپ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ منصور نے اہل موصل سے حالیہ بغاوت کرنے سے پہلے جو عہد لیا تھا وہ ان کے خون اور مال سے متعلق تھا کہ ’’آئندہ اگر وہ بغاوت کریں گے تو ان کے خون اور مال اس پر حلال ہوں گے۔‘‘ اور اسی معاملہ کے متعلق منصور نے فقہا کی ایک جماعت سے جس میں امام ابوحنیفہؒ بھی موجود تھے یہ پوچھا کہ ’’معاہدے کی رو سے ان کے خون اور مال مجھ پر حلال ہوگئے ہیں یا نہیں ؟‘‘ اور اسی کے متعلق امام نے کہا تھا کہ ’’اہل موصل سے ہاتھ روک لیجیے۔ ان کا خون بہانا آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘ حالانکہ مبسوط کی عبارات سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاہدہ باغیوں کے خون اور مال کی حلت و حرمت سے متعلق نہیں تھا بلکہ ان قیدیوں کے قتل سے متعلق تھا جو مشرک تھے اور باغیوں نے انھیں بطور ’’رہن‘‘ مسلمانوں کے ہاتھوں میں دے دیا تھا({ FR 2253 })اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدیوں کی حیثیت سے تھے اور چونکہ معاہدے میں جانبین نے یہ شرط مقرر کر رکھی تھی کہ اگر ایک فریق نے دوسرے فریق کے قیدیوں کو قتل کر دیا تو دوسرا فریق بھی اس کے قیدیوں کو قتل کرسکے گا اور اہل موصل نے ان مسلمان قیدیوں کو پہلے قتل کر ڈالا تھا جو ان کے ہاتھوں میں قیدیوں کی حیثیت سے تھے، اس لیے علما سے یہ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی کہ ہم ان مشرک قیدیوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں جو باغیوں کی طرف سے ہمارے ہاتھوں میں ہیں ۔ تو ان قیدیوں کے قتل کے متعلق امام اعظم نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ’’یہ آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘ نہ کہ امام اعظم نے مسلمان رعایا کی بغاوت کے متعلق خود باغیوں کے بارے میں یہ فرمایا تھا کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔
اس کے علاوہ خود باغیوں کے بارے میں امام اعظمؒ یہ فتویٰ دے کیسے سکتے تھے کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔‘‘ جب کہ امام سرخسی نے اسی باب کی ابتدا میں باغیوں کے بارے میں امام اعظمؒ کا مذہب یہ نقل کیا ہے کہ ’’باغی لوگ جب ایسے امام سے بغاوت کریں جس کی وجہ سے ملک میں امن و امان قائم ہوگیا ہو(خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو) تو ان کا قتل واجب ہے۔‘‘
فَإِنْ کَانَ الْمُسْلِمُونَ مُجْتَمِعِیْنَ عَلَی وَاحِدٍ وَ کَانُوا آمِنِینَ بِہِ وَالسَّبِیلُ آمِنَۃً فَخَرَجَ عَلَیہِ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَحِینَئِذٍ یَجِبُ عَلَی مَنْ یَقْوَی عَلَی الْقِتَالِ أَنْ یُقَاتِلَ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ الْخَارِجِینَ۔({ FR 2254 })
’’اگر مسلمان ایک حاکم پر مجتمع ہوں ، امن و امان میں ہوں اور راستہ محفوظ ہو، پھر اس حاکم پر مسلمانوں کا ایک گروہ خروج کرے تو جو شخص لڑسکتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر خروج کرنے والوں سے لڑے۔‘‘
امام سرخسیؒ نے اس حکم کے لیے جو دلائل پیش کئے ہیں ان میں ایک یہ آیت کریمہ بھی ہے:
فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىہُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللہِ۝۰ ( الحجرات :۹)
’’پس اگر ان دونوں (گروہوں ) میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو لڑو اس سے جو زیادتی کرتا ہے حتیٰ کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی جانب۔‘‘
قرآن کے اس صریح حکم کے مقابلے میں امام اعظمؒ آخر کیسے یہ کہنے کی جرأت کرسکتے تھے کہ ’’باغیوں کا قتل جائز نہیں ہے۔‘‘ اس بارے میں امام سرخسیؒ نے مبسوط میں جو تفصیل پیش کی ہے میں اسے یہاں نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ خود اس مقام پر دوبارہ نظر ڈال کر ترجمان القرآن کے ذریعہ اس خط کے جواب میں اپنے مضمون کی اصلاح فرمائیں گے اور خط بھی فائدہ عام کے لیے شائع کریں گے۔

ماہنامہ ترجمان القرآن نومبر۱۹۶۳ء کے پرچے میں مسئلہ خروج کے متعلق میرا سابق خط اور اس کا جو جواب شائع فرمایا گیا ہے اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں ۔ مگر افسوس ہے کہ اس جواب سے میرا وہ خلجان دور نہ ہوا جو مسئلہ خلافت کے مطالعے سے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپنی گزارشات کو ذرا تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کروں ۔ امید ہے کہ ان کا جواب بھی آپ ترجمان القرآن میں شائع فرمائیں گے تاکہ قارئینِ ترجمان کے معلومات میں اضافے کا موجب بنے۔
’’مسئلہ خلافت‘‘ میں آپ نے امام ابوحنیفہؒ کا جو مسلک بیان فرمایا ہے اس میں آپ نے ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کے تین بڑے بڑے نکات بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ امام اعظم ؒ نہ تو خوارج ومعتزلہ کی طرح اس کی امامت کو اس معنی میں باطل قرار دیتے ہیں کہ اس کے تحت کوئی بھی اجتماعی کام جائز طور پر انجام نہ پاسکے اور مسلم معاشرہ اور ریاست کا پورا نظام معطل ہو کر رہ جائے، اور نہ وہ مرجیہ کی طرح اس کو ایسا جائز اور بالحق تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں ۔ بلکہ امام موصوف ان دونوں انتہاپسندانہ نظریات کے درمیان ایسی امامت کے بارے میں ایک معتدل اور متوازن نظریہ پیش کرتے ہیں ، وہ یہ کہ اس کے تحت اجتماعی کام سب کے سب جائز ہوں گے۔ لیکن یہ امامت بجاے خود ناجائز اور باطل ہوگی۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ظالم حکومت کے خلاف ہر مسلمان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق حاصل ہے، بلکہ یہ حق ادا کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ تیسرا نکتہ یہ کہ امام اعظمؒ کے نزدیک ایسی ظالم حکومت کے خلاف خروج بھی جائز ہے بشرطیکہ یہ خروج فساد وبدنظمی پر منتج نہ ہو بلکہ فاسق امامت کی جگہ صالح امامت کا قائم ہوجانا متوقع ہو۔ اس صورت میں خروج نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔
اس سلسلے میں میری گزارشات یہ ہیں کہ یہ کہنا کہ ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت باطل ہے۔‘‘ اور ’’امام اعظمؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی حکومت کے خلاف خروج جائز ہے‘‘ امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے کہ ظالم فاسق اگر قوم پر اپنی قوت اور طاقت کے غلبے سے بھی مسلّط ہو جائے جس کو فقہا کی اصطلاح میں ’’ متغلب‘‘ کہا جاتا ہے اور اپنے احکام کو طاقت کے ذریعے نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو گو وہ ظالم وفاسق بھی ہو اور اس کے ساتھ متعارف طریقوں سے بیعت بھی نہ ہوئی ہو، مگر امام ابوحنیفہؒ اس کی امامت کو اس معنیٰ میں معتبر قرار دیتے ہیں کہ اس کے خلاف خروج وبغاوت کو ناجائز سمجھتے ہیں ۔ اور جس طرح کہ اس کی امامت کے تحت دوسرے اجتماعی کاموں کو جائز اور معتبر قرار دیتے ہیں اسی طرح خروج اور بغاوت کو بھی ایسی حکومت کے بالمقابل حرام اور ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ میری اس راے کی تائید فقہاے مذہبِ حنفی کے درج ذیل اقوال سے ہوسکتی ہے:
(وَالْإِمَامُ يَصِيرُ إمَامًا) بِأَمْرَيْنِ (بِالْمُبَايَعَةِ مِنْ الْأَشْرَافِ وَالْأَعْيَانِ،[ …] وَكَذَا بِاسْتِخْلَافِ إمَامٍ قَبْلَهُ وَكَذَا بِالتَّغَلُّبِ وَالْقَهْرِ كَمَا فِي شَرْحِ الْمَقَاصِدِ. قَالَ فِي الْمُسَايَرَةِ: وَيَثْبُتُ عَقْدُ الْإِمَامَةِ إمَّا بِاسْتِخْلَافِ الْخَلِيفَةِ إيَّاهُ كَمَا فَعَلَ أَبُو بَكْرٍ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -، وَإِمَّا بِبَيْعَةِ جَمَاعَةٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ أَوْ مِنْ أَهْلِ الرَّأْي وَالتَّدْبِيرِ. وَعِنْدَ الْأَشْعَرِيِّ يَكْفِي الْوَاحِدُ مِنْ الْعُلَمَاءِ الْمَشْهُورِينَ مِنْ أُولِي الرَّأْيِ بِشَرْطِ كَوْنِهِ بِمَشْهَدِ شُهُودٍ لِدَفْعِ الْإِنْكَارِ إنْ وَقَعَ. وَشَرَطَ الْمُعْتَزِلَةُ خَمْسَةً. وَذَكَرَ بَعْضُ الْحَنَفِيَّةِ اشْتِرَاطَ جَمَاعَةٍ دُونَ عَدَدٍ مَخْصُوصٍ ثُمَّ قَالَ: لَوْ تَعَذَّرَ وُجُودُ الْعِلْمِ وَالْعَدَالَةِ فِيمَنْ تَصَدَّى لِلْإِمَامَةِ وَكَانَ فِي صَرْفِهِ عَنْهَا إثَارَةُ فِتْنَةٍ لَا تُطَاقُ حَكَمْنَا بِانْعِقَادِ إمَامَتِهِ كَيْ لَا تَكُونَ كَمَنْ يَبْنِي قَصْرًا وَيَهْدِمُ مِصْرًا، وَإِذَا تَغَلَّبَ آخَرُ عَلَى الْمُتَغَلِّبِ وَقَعَدَ مَكَانَهُ انْعَزَلَ الْأَوَّلُ وَصَارَ الثَّانِي إمَامًا وَتَجِبُ طَاعَةُ الْإِمَامِ عَادِلًا كَانَ أَوْ جَائِرًا إذَا لَمْ يُخَالِفْ الشَّرْعَ، فَقَدْ عُلِمَ أَنَّهُ يَصِيرُ إمَامًا بِثَلَاثَةِ أُمُورٍ، لَكِنَّ الثَّالِثَ فِي الْإِمَامِ الْمُتَغَلِّبِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ فِي شُرُوطِ الْإِمَامَةِ({ FR 2256 })
بہرحال امام میں عدالت شرط ہے مگر صحت امامت کے لیے نہیں بلکہ اولویت کے لیے شرط ہے۔ اس بنا پر فاسق کی امامت کو مکروہ کہا گیا ہے نہ کہ غیر صحیح۔ وَعِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ لَيْسَتْ الْعَدَالَةُ شَرْطًا لِلصِّحَّةِ فَيَصِحُّ تَقْلِيدُ الْفَاسِقِ الْإِمَامَةَ مَعَ الْكَرَاهَة۔۔۔ ({ FR 2257 }) اسی قانون کے تحت حنفیہ نے متغلب کی امامت کو صحیح کہا ہے۔ وتصح سلطنۃ متغلب للضرورۃ ایسے فاسق کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ بیان کیا گیا ہے: وَيَجِبُ أَنْ يُدْعَى لَهُ؛ وَلَا يَجِبُ الْخُرُوجُ عَلَيْهِ؛ كَذَا عَنْ أَبِي حَنِيفَة۔ یہ تمام عبارتیں ابن ہمام نے مسائرہ میں ذکر کی ہیں ۔ جن سے صاف طور پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جس طرح ایک فاسق کی حکومت کے تحت دین کے دوسرے اجتماعی کام جائز طریقے سے انجام دیے جاسکتے ہیں ۔ اسی طرح اس حکومت کے خلاف امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک عزل اور خروج دونوں جائز ہیں ۔ مگر اس میں شرط یہ ہے کہ عزل اور خروج موجبِ فتنہ نہ ہوں ۔ اور چونکہ فی زماننا ہر خروج اپنے ساتھ بہت سے فتنے لے کر نمودار ہوجاتا ہے اس لیے بعض احناف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وَأَمَّا الْخُرُوجُ عَلَيْهِمْ وَقِتَالُهُمْ فَمُحَرَّمٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ وَإِنْ كَانُوا فَسَقَةً ظَالِمِين({ FR 2258 }) اس لیے ایسی حکومتوں میں محض زبانی طور پر فریضہ تبلیغ ادا کرنا کافی ہوگا۔
مسلمان باغیوں کے بارے میں جہاں تک میں نے امام اعظمؒ کا مسلک سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جن صورتوں میں بغاوت ناجائز ہو اور امام سے کوئی بغاوت کی جائے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جو لوگ بغاوت کے مرتکب ہوچکے ہوں ان کا قتل جائز ہے۔ البتہ جو افراد بغاوت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوئے ہوں ان کو قتل کرنا جائز نہیں ۔ خواہ وہ چھوٹے بچے اور عورتیں ہوں یا بوڑھے اور اندھے ہوں ۔ یا دوسرے بالغ مرد ہوں جو جماعت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوں ۔ اس کے ثبوت کے لیے بطور حوالہ فقہاے حنفیہ کی درج ذیل عبارات ملاحظہ فرمائی جائیں :
امام سرخسیؒ لکھتے ہیں : ’’فَإِنْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ مُجْتَمَعِينَ عَلَى وَاحِدٍ، وَكَانُوا آمِنِينَ بِهِ، وَالسَّبِيلُ آمِنَةً فَخَرَجَ عَلَيْهِ طَائِفَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَحِينَئِذٍ يَجِبُ عَلَى مَنْ يَقْوَى عَلَى الْقِتَالِ أَنْ يُقَاتِلَ مَعَ إمَامِ الْمُسْلِمِينَ الْخَارِجِينَ۔({ FR 2259 }) وجوب قتال کے لیے امام سرخسیؒنے تین دلائل بیان کیے ہیں ، جن میں سے ایک دلیل یہ آیت کریمہ ہے: فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىہُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللہِ ({ FR 2260 }) ( الحجرات:۹) ۔ دوسری دلیل امام موصوف نے وجوبِ قتال کے لیے یہ بیان کی ہے: وَلِأَنَّ الْخَارِجِينَ قَصَدُوا أَذَى الْمُسْلِمِينَ وَإِمَاطَةَ الْأَذَى مِنْ أَبْوَابِ الدِّينِ، وَخُرُوجُهُمْ مَعْصِيَةٌ، فَفِي الْقِيَامِ بِقِتَالِهِمْ نَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ وَهُوَ فَرْضٌ۔({ FR 2261 }) اور تیسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے: قال وَلِأَنَّهُمْ يُهَيِّجُونَ الْفِتْنَة قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’الْفِتْنَةُ نَائِمَةٌ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ أَيْقَظَهَا‘‘ فَمَنْ كَانَ مَلْعُونًا عَلَى لِسَانِ صَاحِبِ الشَّرْعِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْه يُقَاتَلُ مَعَهُ({ FR 2262 })
ان تمام عبارات سے یہ توواضح ہوگیا کہ باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہے۔ اور قتال شرعی نقطۂ نگاہ سے ان لوگوں کے ساتھ جائز ہوسکتا ہے جو معصوم الدم نہ ہوں ۔ اس کی طرف حضورﷺ کے درجِ ذیل ارشاد میں اشارہ کیا گیا ہے:
أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ…({ FR 2263 })
پس جب باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہوگیا تو معلوم ہوا کہ ان کو جان کی پوری عصمت حاصل نہیں ہے تو قتل بھی جائز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے مذہبِ حنفی صریح طور پر اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ باغیوں کا قتل جائز ہے۔ صاحب بدائع الصنائع باغیوں کے قتل کے متعلق لکھتے ہیں :
وَأَمَّا، بَيَانُ مَنْ يَجُوزُ قَتْلُهُ مِنْهُمْ ، وَمَنْ لَا يَجُوزُ فَكُلُّ مَنْ لَا يَجُوزُ قَتْلُهُ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ مِنْ الصِّبْيَانِ وَالنِّسْوَانِ وَالْأَشْيَاخِ وَالْعُمْيَانِ لَا يَجُوزُ قَتْلُهُ مِنْ أَهْلِ الْبَغْيِ ؛ لِأَنَّ قَتْلَهُمْ لِدَفْعِ شَرِّ قِتَالِهِمْ فَيَخْتَصُّ بِأَهْلِ الْقِتَالِ وَهَؤُلَاءِ لَيْسُوا مِنْ أَهْلِ الْقِتَالِ ، فَلَا يُقْتَلُونَ إلَّا إذَا قَاتَلُوا ، فَيُبَاحُ قَتْلُهُمْ فِي حَالِ الْقِتَالِ وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ الْقِتَالِ ۔ ({ FR 2264 })
فقہا کی ان تصریحات کے پیشِ نظر باغیوں کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کا مذہب صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان باغیوں پر اگر اسلامی حکومت غالب آ جائے تو وہ تمام ان بالغ مردوں کو قتل کرکے ان کے مال لوٹ لینے کی مجاز ہے جو بغاوت کے مرتکب ہوچکے ہوں ۔ قطع نظر اس سے کہ ان مسلمان باغیوں نے پہلے خود یہ شرط قبول کی ہو یا نہ کی ہو۔ مگر یہ قتال اور قتل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ باغی لوگ ہتھیار نہ ڈالیں ۔ اور جب وہ ہتھیار ڈالیں گے تو قتل و قتال بھی بند کر دیا جائے گا۔
البتہ ان کا مال بطور غنیمت تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ جنگ ختم ہونے یا ہتھیار ڈالنے کے بعد انھیں واپس کیا جائے گا وَكَذَلِكَ مَا أُصِيبَ مِنْ أَمْوَالِهِمْ يُرَدُّ إلَيْهِمْ ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُتَمَلَّكْ ذَلِكَ الْمَالُ عَلَيْهِمْ لِبَقَاءِ الْعِصْمَةِ وَالْإِحْرَازِ فِيهِ({ FR 2265 }) فقہا کی یہ تصریحات اگر امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی پر مشتمل ہوں ، جیسا کہ ہمارا یقین ہے تو ان کے ہوتے ہوئے عقل کیسے یہ باور کرسکتی ہے کہ موصل میں بغاوت مسلمانوں نے کی تھی اور منصور کے ساتھ چونکہ وہ یہ شرط کرچکے تھے کہ اگر ہم نے آئندہ کبھی آپ کے خلاف خروج کیا تو ہمارے خون اور مال آپ کے لیے حلال ہوں گے۔ اس لیے فقہا کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ قتال کے بعد ان باغیوں کی جان اور مال پر ہاتھ ڈالنا جائز ہوگا یا نہیں ، اور اسی کے متعلق منصور کے استفسار پر امام ابو حنیفہؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ان کے خون اور مال آپ کے لیے حلال نہیں ہیں ؟
پھر یہ بات بھی کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ آپ شمس الائمہ سرخسیؒ کے بیان کو صرف اس بنا پر قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کا بیان اہلِ تاریخ سے مختلف ہے حالانکہ بغاوت جیسے اہم معاملے میں فقہا کی جماعت میں سے ایک بڑے فقیہ اور امام اعظمؒ جیسے امامِ فقہ کا مذہب معلوم کرنے میں ان فقہا کے قول پر زیادہ اعتماد کرنا چاہیے جو اس امام کے مذہب سے وابستہ رہے ہوں ۔ تاریخ کے واقعات مرتب کرنے میں غلطیاں زیادہ سرزد ہوسکتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک امامِ مذہب کی فقہی مرویات مرتب کرنے میں غلطیاں واقع ہوں ۔ پھر یہ واقعہ جس طرح کہ مبسوط میں امام سرخسیؒ نے نقل کیا ہے بعینہٖ اسی طرح شیخ ابنِ ہمامؒ نے (فتح القدیر، ج۵، ص۳۴۱) میں بھی نقل کیا ہے۔ ان دونوں اماموں کے مقابلے میں ابن اثیر یا الکردری کے قول کو ترجیح دینا یقیناً ہمارے فہم سے بالاتر ہے۔

گرامی نامہ ملا۔ آپ نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے متعلق مختصراً عرض ہے کہ ابو بکر جصاص، الموفق المکی اور ابن البزاز الکَرْدَرِی کا شمار یقیناً فقہا میں ہوتا ہے۔ اسی طرح احکام القرآن اور دوسری وہ کتابیں جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، بھی معروف کتابیں ہیں ۔ لیکن باایں ہمہ رتبے اور درجے کے لحاظ سے ان حضرات کا مقام امام سرخسیؒ کے مقام سے بہت فروتر ہے۔ اسی طرح امام سرخسیؒ کی کتاب المبسوط کا درجہ اور مرتبہ احکام القرآن وغیرہ کتبِ مذکورہ سے محققینِ احنافؒ کے نزدیک بہت بلند اور مقام بہت اونچا ہے۔ اس لیے فقہیات میں امام اعظمؒ کے مسلک کو متعین کرنے میں المبسوط سرخسیؒ ہی کا فیصلہ معتبر اور قابلِ اعتماد ہوگا نہ کہ احکام القرآن وغیرہ کتب کا۔ علامہ ابنِ عابدین شامیؒ نے محقق ابنِ کمال سے طبقات الفقہا کی تفصیل نقل کرتے ہوئے امام سرخسی کو تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے جو مجتہدین فی المسائل کا طبقہ ہے اور ابوبکر جصاص رازی کو چوتھے طبقے میں شمار کیا ہے جو محض مقلدین کا طبقہ ہے۔
ان تصریحات کے پیشِ نظر خروج کے مسئلے میں امام اعظم کا مذہب وہ قرار دیا جائے گا جو مبسوط میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ وہ جو احکام القرآن یا دوسری تاریخوں میں بیان کیا گیا ہے۔
رہا حضرت زیدؒ بن علی بن الحسین اور نفس زکیہ کے خروج کے واقعات میں امام ابو حنیفہؒ کا طرز عمل، تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے میں اس کو سو فی صد صحیح اور درست سمجھتا ہوں ۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے ان دونوں کے خروج میں ان کی حمایت کی تھی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس مسئلے کی فقہی نوعیت تاریخی نوعیت سے بالکل مختلف ہے۔ فقہ حنفی کی تمام معتبر کتابوں میں حتیٰ کہ کتب ظاہر الروایۃ میں خروج کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام عادل تو درکنار ظالم اور متغلب سے بھی خروج ناجائز اور بغاوت حرام ہے۔ لہٰذا ہمیں ان دو متضاد بیانات کے مابین یا تطبیق سے کام لینا پڑے گا یا ترجیح سے۔ جہاں تک ترجیح کا تعلق ہے، ہم فقہاء کے مسلّمہ اصول کے پیشِ نظر فقہاے مذہبِ حنفی کے بیان کو مؤرخین کے بیان پر اس لیے ترجیح دیں گے کہ مذہب کی تعیین میں ناقلینِ مذہب کا قول زیادہ قابلِ اعتماد ہے اور مؤرخین میں سے جو فقہا ہیں ، جیسے ابوبکر رازی، الموفق المکی اور ابن البزاز، تو یہ چونکہ رتبے اور درجے کے اعتبار سے اصل ناقلینِ مذہب کے ہم سر نہیں ہیں اس لیے ان کا نقل بھی دوسروں کے مقابلے میں قابلِ اعتبار نہیں سمجھا جائے گا، گو تاریخی نقل اور روایت اصولِ روایت کے لحاظ سے قوی کیوں نہ ہو۔
اور اگر ہم تطبیق کا طریقہ اختیار کریں گے تو میرے ذہن میں تطبیق کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ چونکہ زید بن علی کے خروج کا واقعہ بقول آپ کے صفر۱۲۲ھ میں پیش آیا تھا اور نفس زکیہ کے خروج کا واقعہ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے ۱۴۵ھ میں ظاہر ہوا تھا۔ اور امام ابو حنیفہ ؒ بقول ابن کثیرؒ۱۵۰ھ میں وفات پاچکے ہیں ۔({ FR 2269 }) اس طرح خروجِ نفسِ زکیہ کے بعد امام کم سے کم پانچ سال تک زندہ رہ چکے ہیں ۔ اس بناپر ہوسکتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے اپنی آخری عمر میں سابق راے میں تبدیلی کرکے خروج کے متعلق اپنا جدید مسلک یہ متعین کیا ہو کہ ’’خروج اور بغاوت حرام ہے نہ کہ جائز۔‘‘ اور اپنے پہلے مسلک سے امام نے رجوع کیا ہو… اور اس وقت سے امام اعظمؒ بھی دوسرے محدثین کی طرح اس بات کے قائل رہے ہوں کہ ’’خروج جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔ اور اصلاح کے لیے خروج کے بجاے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہی کام لیا جائے گا۔ ‘‘ شاید اسی وجہ سے ملا علی قاری ؒ نے فرمایا ہو: وَأَمَّا الْخُرُوجُ عَلَيْهِمْ وَقِتَالُهُمْ فَمُحَرَّمٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ وَإِنْ كَانُوا فَسَقَةً ظَالِمِين۔({ FR 2270 })
اوپر کے مباحث سے جب یہ بات واضح ہوگئی کہ خروج کے مسئلے میں امام اعظمؒ کا مذہب عدمِ جواز ہے، اور مسلمان باغیوں کا حکم بتصریح فقہا قتل ہے جیسے سابق مکتوب میں فقہا کے حوالے ذکر کیے جاچکے ہیں تو اہلِ موصل کے معاملے میں بھی میرے نزدیک امام سرخسیؒ اور شیخ ابن الہمامؒ کا بیان درست ہے کہ یہ واقعہ مشرکین کے یرغمالیوں سے متعلق تھا نہ کہ مسلمان باغیوں سے۔ کیونکہ مسلمان باغیوں کے بارے میں امام کا مذہب یہ ہے کہ انھیں قتل کیا جائے گا نہ یہ کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔ اگرچہ الکردری کے بیان کے مطابق یہ واقعہ مسلمان باغیوں سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔

ملک کے نظم اور امن کی پاس داری

کیا ایک کافر حکومت کے اندر رہتے ہوئے یہ جائز ہے کہ آدمی لائسنس کے بغیر یا مقررہ موسموں اور اوقا ت میں شکار کھیلے اور بغیرلیمپ کے راتوں کو موٹر یا بائیسکل چلائے؟